“ماں تیری گڑیا لٹ گئی”
تحریر ” محمد سلیم ناصر”

“حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ جانور میں خواہش ہوتی ہے عقل نہیں جبکہ فرشتے میں خواہش نہیں ہوتی اور انسان میں خواہش بھی ہوتی ہے اور عقل بھی اگر انسان اپنی خواہش پر قابو پا لے تو فرشتہ اور اگر اپنے نفس کو خواہش کے تابع کر دے تو جانور”
کہتے ہیں جس گھر میں بیٹی کی پیدائش ہو وہاں اللّٰہ کی خاص رحمت ہوتی ہے بلکہ یوں کہیے کہ بیٹی اللہ کی رحمت کا دوسرا روپ ہے مگر افسوس کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں تعلیم عام ہو چکی ہے اور نظام تعلیم کو مزید بہتر سے بہتر کرنے پر توجہ دی جارہی ہے ہر سال ملکی بجٹ کا بڑا حصہ تعلیمی نظام کی فلاح وبہبود اور بہتری کے لیے نکلا جاتا ہے صرف اس لیے کہ معاشرے میں تہذیب و تمدن کو فروغ ملے اور دنیا میں مثالی معاشرہ پروان چڑھے۔ جن ممالک میں نظامِ تعلیم بہتر ہو گا وہاں کا معاشرتی نظام بھی مثالی ہو گا مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی ضروری نہیں کہ ایک بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تہزیب یافتہ بھی ہو ہماری روزمرہ زندگی میں بہت سی ایسی مثالیں بھی ہیں کہ بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو تہزیب ہوتی ہی نہیں بات بات پر گالی گلوچ کرنا بلا وجہ توں تکرار کرنا اور معاشرتی برائیوں میں مبتلاء رہنا انکی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے اور پھر یہ کیفیت انسان کی نفسیات پر قابض ہو جاتی ہے خواہش کسی بھی چیز کی ہو انسان کو اسکی تکمیل جائز اور ناجائز کام کروانے کے لیے ہر لمحہ بے چین رکھتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب انسان سچ جھوٹ’ اچھا برا اور گناہ ثواب کو پس پشت ڈال کر صرف اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے جانور بننے میں دیر نہیں لگاتا۔ جب تہزیب کا دامن انسان ہاتھ سے بلکل چھوڑ دیتا ہے تو معاشرے میں بگاڑ کو فروغ ملتا ہے نت نئی برائیاں جنم لیتیں ہیں اور برائیوں کے پھیلاؤ میں دیگر معاشرتی عوامل بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں مثلاً دوستوں کی صحبت ماحول پر اثرانداز ہوتی ہے پھر بڑھتی ہوئی ترقی کیوجہ سے الیکٹرانک سکرینوں پر انٹرٹینمنٹ کے مختلف پروگرامز میں جس طرح کی ڈریسنگ اور سٹوریز ہیں اوپر سے موبائل فون کے بے جاء استعمال اور جدید موبائل فونز پر انٹر نیٹ کی سہولت نے مختلف ویب سائٹس کے ذریعے معاشرتی برائیوں کو بام عروج پر پہنچا دیا جس کا سب سے زیادہ برا اثر ہمارے معاشرے پر پڑا ہے ملک میں روز بہ روز بچیوں اور چھوٹے بچوں کے ساتھ عصمت زری اور بدفعلی جیسے واقعات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ویسے تو ہر دن کسی نہ کسی شہر سے عصمت زری اور بدفعلی کی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتیں ہیں۔
مگر آج میں قارئین کی نظر ایک ایسی معذور بچی کے ساتھ ہونے والے ظلم کے بارے بتانے جا رہا ہوں جو اپنی بائیں ٹانگ سے معذور ہے اور زبان سے بھی نہ ہونے کے برابر کبھی کبھی بات کر پاتی ہے جس کا تعلق ضلع رحیم یارخان کے دیہی علاقے موضع رنگ پور سے ہے بچی کا نام صفیہ ہے جو تقریبآ سولہ سترہ سالہ ہے اور انتہائی غریب گھرانے سے ہے دیہاتی ماحول ہونے کی وجہ سے وہ معمول کے مطابق اپنی رشتہ دار کے ہمراہ مال مویشیوں کے چارے کے لیے گھر سے دور کپاس کی فصل سے گھاس کاٹنے گی کہ اچانک سے وہاں کے مقامی دو نوجوان ندیم اور غلام مرتضیٰ نے ان کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگے تو صفیہ کی رشتہ دار بچی بھاگ گی جبکہ یہ معذور بچی ان دو بھیڑیوں کے ظلم کا شکار ہو گئی اور انہوں نے فصل کپاس کی کھیلوں میں گرا کر اپنی حوس کا نشانہ بنایا جب تک دوسری بچی نے گھر جاکر بتایا اور گھر والے و دیگر بستی کے لوگ جب موقع پر پہنچے تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور معذور صفیہ کی دنیا اجڑ چکی تھی صفیہ کا دامن پاک ہی رہتا اگر وہ بھی بھاگ سکتی۔ یہاں تک تو ظلم کو برداشت کرنے والی صرف ایک معذور بے بس لاچار ڈری ہوئی سہمی ہوئی ایک صفیہ ہی تھی جو من ہی من میں “کہہ رہی تھی ماں تیری گڑیا لٹ گئی” مگر اس سے آگے جو ظلم و بربریت کا نیا باب کھلنے والا تھا اس ظلم کا شکار سارا گھرانہ ہونے والا تھا وہ ظلم یہ تھا کہ ان ظالموں کو انکے گناہ کی سزا دلوائی جائے اور اس کے لیے قانون کی مدد لی جائے یہی سوچ کر جب صفیہ کے گھر والے مقامی تھانہ رکن پور گے تو شام تک انتظار کی سولی پر لٹکے رہنے کے بعد اور ان گنت سوالات کے بعد بھی علاقے کے بااثر اوباش ملزمان کے خلاف مقدمہ درج نہ ہو سکاتو میڈیا کے ذریعے سے پریشر ڈالا گیا پھر جاکر عوام کی عزت اور جان و مال کے نام نہاد محافظوں نے اپنی نوکری بچانے کے لیے مقدمہ درج کیا مگر اس میں بھی ملزمان سے مک مکا کر کے زیادتی کو زیادتی کرنے کی کوشش میں تبدیل کر دیا اس کے ساتھ ساتھ عمربھی تبدیل کر دی اور معذوری کا کہیں ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ اور موقع کی چشم دید گواہ جو دوسری بچی بھاگ گئی تھی اس کو بھی بطور گواہ ایف آئی آر میں درج نہ کیا گیا’ اور پھر اپنے ملک کا نظامِ قانون اور انصاف مہیا کرنے کے تقاضے تو الاماشائاللہ ہے کیونکہ یہاں پر بھی اب قانون کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے امیروں وزیروں مشیروں اور سرکاری ملازمین کے لیے الگ قانون ہے اور غریب کے لیے الگ خیر اللہ اللہ کر کے مقدمہ درج ہونے کے بعد آگے قانون کے دیگر تقاضے پورے کرنے میں جو اذیت اور پریشانی اور جگہ جگہ سوال جواب نے جو تکلیف اس معذور بچی کے والدین کو دی جس کو وہ ابھی تک برداشت کر رہے ہیں صرف اس امید پر کہ شائد ہمیں انصاف مل سکے یا وہ انصاف لینے میں کامیاب ہو سکیں مگر تاحال مجھے تو ان کا انٹرویو لیتے ہوئے یہی محسوس ہوا کہ ابھی تک قانونی تقاضے پورے کرنے کے چکر میں خود بہ خود ہی کیس سے رفو چکر ہو جائیں گے ابھی کیس اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور دو مرتبہ ڈی این ٹیسٹ سے پولیس نے روکا اور ایک مرتبہ تفتیشی تبدیل ہو چکا ہے جبکہ ایسے کیس کی تفتیش لیڈی پولیس افسر کرتی ہے جوکہ ابھی تک کیس کو لیڈی پولیس افسر کو ریفر ہی نہیں کیا گیا۔ میں تو پولیس کی ایسی کارگزاری پر صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ” غریب کی بیٹی کی عزت لٹ گی اور پولیس کو اپنی دوکانداری کا موقع مل گیا” جرائم میں اضافے کا سب سے بڑا سبب خود ہمارا فرسودہ نظامِ قانون ہے وزیراعظم پاکستان کو اور چیف جسٹس پاکستان کو چاہیے کہ ایسے سنگین نوعیت کے جرم کی سزا بھی سنگین ہونی چاہیے جن میں معافی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔