
پاکستانی یوم آزادی کیوں منائیں؟
تحریر: پروفیسرراجہ عبدالرحمن جنجوعہ (ماہر خصوصی تعلیم)

بچپن میں سنا تھا کہ پاکستان بہت قربانیوں کے بعد بنا تھا۔ ایک دُبلا پتلا ٹوپی پہنے نوجوان انگریزوں کے خلاف پر سر پیکار تھا برصغیر پاک وہند میں بسنے والے لوگوں کو بتا رہا تھا کہ ہندو، مسلمان دو الگ قومیں ہیں ان کے رسم ورواج،تہذیب وتمدن، ثقافت اور خاص طور پر مذہب مختلف ہیں۔14 اگست 1947ء کو پاکستان دنیا کے نقشے پہ ظاہر ہو گیا اور آج ہم ہر سال نہ صرف آزادی کا دن دھوم دھام سے مناتے ہیں بلکہ اللہ کا شکر بھی بجا لاتے ہیں۔

مگر یہ الگ بات ہے ہم اصدف کے اقدار کو بھول جاتے ہیں۔نوجوانوں سڑکوں پر ون ویلنگ کا شوق پورا کرتے کرتے سڑکوں کو اپنے خون سے سرخ کردیتے ہیں۔ اور کچھ نادان لڑکے لڑکیاں اپنی مشہوری کیلئے ٹک ٹاک کا سہارا لیتے ہوئے اسلامی اقدار کو پامال کر دیتے ہیں۔ جبکہ اس دن ہمیں اصرف کی قبروں کی زیارت کرنا چاہیے اور قومی ہیروں کو سلام عقیدت پیش کرنا چاہیے۔گزشتہ سالوں کی طرح اس مرتبہ اپنا گھر اولڈ پیپلز ہوم جہلم میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا اس کے مہمان خصوصی متحرم شاکر حسین داوڑصاحب DPO جہلم تھے۔ پھر نعت رسول ﷺ پیش کی گئی۔ اولڈ ہوم میں رہنے والے افراد نے مل کر قومی ترانہ پیش کیا۔چیرمین اولڈ ہوم متحرمہ ڈاکٹر آسیہ ممتاز نے اولڈ ہوم کی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ مہمان خصوصی کو بتایا گیا کہ اس وقت اولڈ ہوم میں ستر مرد اور پچاس خواتین زیر کفالت ہیں جس کی اولادیں کسی تہوار پر ملنے بھی نہیں آتیں۔مہمان خصوصی نے اپنی تقریر میں ادارے کی خدمات کو سراہا۔ تقریب کے اختتام پر مہمان خصوصی کو مردوخواتین سے فرداََ فرداََ ملوایا گیا۔ عورتین فرط جذبات سے ڈی پی او صاحب کے گلے لگ کر رونے لگیں اور اپنے ساتھ اولاد کے ناروا سلوک کے قصے سنانے لگیں۔ دقت آمیز مناظر زندگی میں نہیں دیکھے تھے کہ اولاد کس طرح اپنے بزرگوں کو دور پہنچا کر زندگی کی عیاشیوں میں مصروف ہیں۔DPO صاحب نے یقین دہانی کروائی کہ والدین کو ان کی اولاد سے ملانے کی کوشش کریں گے۔آج اگر ہم آزادی کا دن منا رہے ہیں تو ان اصلاف کی وجہ سے ممکن ہوا جنہوں نے جانی ومالی قربانی دی۔ اللہ تولیٰ سے دُعا ہے ہمارے ملک کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے اور ہم جشن آزادی اسی طرح دھوم دھام سے منائیں