
خیبر پختونخواہ سمیت ملک بھر میں جامع جسمانی بحالی مراکزکا سخت فقدان ہے! معذور افراد
ملک بھر میں جامع جسمانی بحالی مراکز ضلعی سطح پر بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، معذور افراد کا حکومت سے مطالبہ!
تحریر: مشتاق حسین مہمند

خیبر پختونخوا سمیت ملک بھرمیں علاج معالجے کیلئی حکومتی سطح پرسرکاری،نیم سرکاری اور بڑے بڑینجی ہسپتالوں میں اصلاحات اور پرانے سسٹم کو کمپیوٹرائز کرنا موجودہ حکمرانوں کا عوام کیلئے بڑا تحفہ ہے،ان سرکاری ہسپتالوں کو حکومت وقت نے ہر طرح کی جدید مشینریوں سے بھی لیس کروایا ہوا ہے، اسکے علاوہ خیبر پختونخوا کے ہر شہری کادس لاکھ روپے تک مفت علاج معالجہ صرف اور صرف قومی شناختی کارڈ کے ذریعے یقینی بنایا،یعنی جو بیمار کسی بھی سرکاری یا پرائیوٹ ہسپتال میں علاج کی غرض سے جائے گا،وہ صرف اور صرف اپنا قومی شناختی کارڈ دکھائے گا اور اس کامفت علاج کیا جائے گا،لیکن ان دس لاکھ روپیکی خطیر رقم میں صرف اور صرف ان امراض کا علاج ممکن ہے،جس کیلئے آپ کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑے،یعنی جن امراض میں آپریشن کی ضرورت ہوتب آپ کے تقریبااسّی فیصداخراجات حکومت برداشت کرے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ غریب عوام کو اس سے کتنا فائدہ ہے؟ اور یہ کہ اس پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام کس حد تک ہورہا ہے ؟ یہ تو عوامی رائے سے پتہ چلے گا، لیکن امید ہے کہ عوام اس نظام سے مطمئن ہونگے۔
آئییآج آپ کی توجہ صحت کے حوالے سیایک نہایت اہم شعبے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں،اور وہ یہ کیجن افراد پر فالج (سٹروک)حملہ آور ہوجاتا ہے تو ان کا علاج اور مکمل جسمانی بحالی صرف اور صرف جسمانی ورزش یعنی فزیکل تھراپی سے ہی ممکن ہوتی ہے،اور آجکل فالج ایک عام بیماری بن گئی ہے،کیونکہ اکثر بیماریاں جن میں فالج،شوگراوربلڈپریشروغیرہ شامل ہیں یہ بیماریاں دراصل ہماری معاشی اور معاشرتی زندگی میں پیدا ہونے والیمسائل کی وجہ پیدا سے ہوتی ہیں،کیونکہ دن بدن کمر توڑ مہنگائی کے علاوہ فرسودہ رسم ورواج نے غریب عوام کی زندگی کو اجیرن بنادیا ہیاور یہی وجہ ہے کہ ایسے حالات میں انسان اعصابی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے،جس کی وجہ سے بلڈ پریشر بہت ہائی ہوجاتا ہے جو اکثر دماغ کی شریان پھٹنے سے یا پھرفالج کے خطرناک دورے سے دوچار ہوجاتا ہے۔اب جب کوئی انسان زندگی کے ایسے نامساعد حالات کی وجہ سے ایسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو سرکاری ہسپتالوں میں تو فیزیکل تھراپی کے شعبہ جات تو موجود ہوتے ہیں لیکن ایسے مریضوں کووہاں زیادہ سے زیادہ دو چار دن رکھنے کے بعد رخصت کر دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتادیا جاتا ہے کہ آپ ورزش سے ہی مکمل طور پر صحتیاب ہوسکتے ہیں لہذا آپ اپنی ورزش،بہتر خوراک اور آرام کا خاص خیال رکھیں گے، بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایسے مریضوں کی جامع جسمانی بحالی کے مراکز کا بد ترین فقدان ہے جس کی وجہ سے آئے دن جسمانی اور ذہنی معذوریوں کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے کیونکہ جب عام ہسپتالوں میں جسمانی بحالی ہوتی نہیں،اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں صحت کارڈ پر ایسے مریضوں کا علاج ہوتا نہیں، تو سوچنے کی بات ہے کہ ایک غریب جسمانی یا ذہنی فالج زدہ،مریض روزانہ کی بنیاد پر فزیکل تھراپی کروانے پر ہزار پندرہ سو روپے فی وزٹ کہاں سے ادا کرے گا،آجکل دیہاڑی دار دن بھر محنت مزدوری کرنے پر سات آٹھ سو روپے مشکل سے کماتا ہے جس میں بمشکل وہ اپنے بال بچوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کر لیتاہے، غریب تو غریب ماہوار تنخواہ پانے والے درمیانے طبقے کے لوگ جنہیں سفید پوش طبقہ بھی کہا جاتا ہیوہ بھی اتنے مہنگے علاج کا کسی بھی طور متحمل نہیں ہوسکتا،کیونکہ پچھلے ستر سالوں سے حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ ہمارا ملک آج تک کسی بھی شعبے میں ایسی ترقی نہیں کر سکا جس سے عام آدمی کو فائدہ پہنچتا ہو،طب کے شعبے کے لئے بھی سالانہ بجٹ میں اچھی خاصی رقم تو مختص ہو جاتی ہے لیکن کیا اس میں مذکورہ بالا امراض کے لئے بھی کوئی رقم مختص ہوتی ہے یا نہیں؟ کیا ایسے مریض کو ہیلتھ کارڈ کے ذریعے مفت علاج فراہم نہیں کیا جاسکتا؟
ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز اپنے لوگوں کی بہتر معیار زندگی پر سالانہ بجٹ کا زیادہ سے زیادہ حصہ صحت اور تعلیم پر صرف ہوتا ہے، صحت کے شعبے میں جدید ترین ہسپتالوں کے علاوہ جسمانی بحالی کے مراکز بھی بہت زیادہ ہیں، جہاں ایسے مریضوں کا علاج وغیرہ اور جسمانی بحالی پر خا ص توجہ دی جاتی ہے،کیونکہ ایک صحت مند معاشرہ ہی ملک وقوم کی معاشی اور معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
پاکستانی عوام کی پوشیدہ صالاحیتوں، خاص طور پر ایسے افراد جو پیداشئی طور پر یا بعد میں کسی نہ کسی جسمانی معذوری سے دوچار ہوجاتے ہیں تو عام طور یہ تاثر بالکل غلط اور مایوس کن ہوتا ہے کہ یہ تو معذور ہے یا معذور ہو گیا، اور لوگ صرف اور صرف ہمدردیاں جتانے لگ جاتے ہیں، ہمدردیوں کی بجائے اگر ہم من حیث القوم اپنے آپ میں یہ شعور اجاگر کریں کہ ایسے افراد کو معاشرے کا فعال شہری بنانے میں حکومت کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی اپنا اپنا کردار ادا کریں،چاہے وہ تعلیمی اداروں میں ہوں یا ہر ادارے میں موجود افسران اور انکے تمام سٹاف ممبران کا،جن کا بلواسطہ یا بلا واسطہ ایسے معذور لوگوں کے ساتھ تعلق ہوں، تو انکی مدد کی جائے یہ ہم سب کی ذمیداری بنتی ہے،میں پورے وثوق سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں،کہ جسمانی معذوری سے پہلے ایک بندہ جس طرح کا م کرتا تھا معذوری کے بعد وہی بندہ پہلے سے زیادہ اور بہتر انداز میں کام کاج کا اہل ہوجاتا ہے، بشرط یہ کہ کام کرنے والی جگہ کو ہر طرح کے حائل رکاوٹوں سے پاک کیا جائے۔ لہذا حکومت وقت سے گذارش کی جاتی ہے کہ ایسیجامع بحالی مراکز بنائے جائیں جن میں جسمانی فالج، ذہنی فالج، پولیو اور دیگر ایسی بیماریاں جن میں صرف فزیو تھراپی یا سائیکو تھراپی کی ضرورت ہوتو ایسے جسمانی بحالی مراکز پوریخیبر پختونخواہ سمیت ملک بھر میں ضلعی سطح پر بنائے جائیں تاکہ فالج ذدہ مریضوں کو وہاں داخل کروایا جاسکے اورمفت علاج معالجے کے علاوہ کھانا پینا بھی فراہم کیا جاسکے،اورجب مریض مکمل طور پر صحتیاب ہوجائے، تب اس کو اس ادارے سے فارغ کرکے گھر بھیج دیا جائے،تاکہ وہ پھر سے اپنے گھرانے کا کفیل بن جائے اور باوقار طریقے سے معاشرے میں زندگی گذار سکے،
مجھے امید ہے کہ اگر ہماری آواز حکومت وقت اور دیگر تمام اعلی حکام تک پہنچ جائے تو ایک لمحہ ضائع کئے بغیر وہ ایسے جامع جسمانی بحالی سنٹر بنانے میں حکمران جماعت، متعلقہ افسران بالا اور سوشل ایکٹیوسٹس کے علاوہ ملکی اور بیرونی فلاحی اداروں سمیت تمام مخّیر حضرات بھی بھر پور حصہ لیں گے،کیونکہ انسانیت کی خدمت ہر انسان کا انفرادی اور اجتماعی اخلاقی فرض ہے۔