
معذوری کو مجبوری نہ بنائیں۔۔۔۔۔۔۔۔فارس مغل کی آپ بیتی

یہ 2008 ء کی بات ہے دستِ قدرت دھیرے دھیرے مجھے وہیل چیئر کی جانب دھکیل رہا تھا۔وہ بے حد اذیت ناک دور تھا۔ مجھے اپنی معذوری کے ساتھ سمجھوتہ کرنا سیکھنا تھا۔یہ قبول کرنا تھا کہ اب کبھی میرے قدموں کی آہٹ سے محلے کی گلیاں بیدار نہیں ہوں گی۔کھیلوں کا میدان میری آواز کو ترسے گا۔زندگی کے چار سمت پھیلے رنگ سمٹ کر محدود کینوس پراتر آئیں گے۔یہی نصیب تھا اور کاتبِ وقت مقدر پوچھ کر نہیں لکھتا۔اس سے قبل مجھے اپنے پیروں میں شدید کمزوری محسوس ہوتی تھی۔کوئٹہ میں ڈاکٹروں سے مشاورت کے بعد کراچی میں بسیرا کیا جہاں میرے مختلف نوعیت کے ٹیسٹ کیے گئے اور بالآخر مسلزبائیوپسی کے بعد سوہانِ روح خبر سنائی گئی کہ میں بہت جلد وہیل چیئر پر آجاؤں گا۔میں اپنے قدموں پر کھڑا ڈاکٹر کی طرف دیکھ کر اس کی مشکوک ذہنی حالت پرہکا بکا تھا۔ذہن و دل پرمیڈیکل رپورٹس کا بوجھ اٹھائے کوئٹہ واپس چلا آیا اور بعد ازاں گھر والوں کی ایما پر پیروں فقیروں کے ہاں حاضری دینے کے علاوہ ہومیو پیتھک اور یونانی ادوایات سے بھی روگ دور کرنے کی کوشش کر دیکھی مگر میڈیکل سائنس کا لکھامٹ نہیں سکا۔یوں میرا وجود بیماری سے لڑتے لڑتے 2009 ء میں وہیل چیئر پر ڈھے گیا۔مجھے ”Limb Girdle Muscular Dystrophy“ تشخیص ہوئی تھی۔جوہنوز دنیا بھر میں لاعلاج تصور کی جاتی ہے۔
میرا نام فارس مغل ہے۔کوئٹہ میں پیدا ہوا اوراسی شہر کی گود میں پروان چڑھا۔پیشے کے اعتبار سے معلم ہوں۔افسانہ نگاری ناول نگاری اور شاعری سے شغف رکھتا ہوں۔چار طبع زاد تصانیف کا مصنف ہوں جن میں ناول ’ہمجان‘۔ناول’سو سال وفا‘۔ شعری مجموعہ’سرخ ہونٹوں کی کنج گلی میں‘ اور افسانوی مجموعہ’آخری لفظ‘شامل ہیں۔
کہانی سے میرا باقاعدہ تعارف بچپن میں والد محترم نے کروایا جو کراچی سے ہمارے لیے ‘کیسٹ کہانیاں ‘لایا کرتے اور میں انھیں سنتے سنتے بالآخر کتابی کہانیوں کے ورق اُلٹنے کے قابل ہوگیا۔ایک روپے میں عمرو عیار، سندباد جہازی،اڑن قالین،الہ دین وغیرہ کہانیاں خرید کر پڑھتا اور دوستوں کے ساتھ کہانیوں کا تبادلہ بھی عروج پر رہتا۔علاوہ ازیں بچوں کی دنیا نونہال اور دیگر رسائل تک رسائی بھی ممکن تھی۔ میں St.Mary’sسکول کوئٹہ کا فارغ التحصیل ہوں۔میرا مطالعاتی دور، تخلیقی دور سے طویل تر ہے۔ میری خوش بختی ہے کہ اب میں دو دہائیوں بعد ادبی سفر کے پہلے پڑاؤ تک پہنچ آیا ہوں جہاں مجھے اپنی تخلیقات پاکستان اور ہندوستان کے معتبرو معروف و مستندادیبوں اور ناقدین کے سامنے پیش کرنے کے مواقع عطا ہوئے اورانہی نابغہء روزگار شخصیات کی آراء فنِ فسوں گری کے حوالے سے معلومات میں بے بہا اضافے کا سبب بنی۔
یہ چودہ اگست 2009 کا دن تھا۔جب میں اسلام آباد میں ”سٹیپ آرگنائزیشن“کی دعوت پر افراد باہم معذوری کے لیے منقعدہ قومی کانفرس میں شریک ہوا۔یہ وہیل چیئر پر میراکسی بھی شہر جانے کا پہلا تجربہ تھا۔میرے ارد گرد ہال میں موجود افراد باہم معذوری موجود تھے اورمیں اپنی حیرت اور افسوس کو پسِ پردہ ڈال کر نم آنکھوں سے انھیں دیکھتا جاتا۔وہ میرے لیے منفرد اور عجیب دنیا تھی جہاں محرومیوں کے باوجود لوگ ہنستے اورمسکراہٹیں خوشبو اڑاتی تھیں خوش گپیوں کے سلسلے دراز تھے جبکہ غم کا نام و نشان نہ تھا۔مایوسی کے آثار مفقود تھے۔اس کے بعد دو چار مزید ورک شاپس اور کانفرنسوں میں شرکت کی جہاں نئے دوست بنتے چلے گئے اور یوں دھیرے دھیرے ظاہری سے نکل کر باطنی احوال سامنے آنے لگے۔
میرا ادبی سفر طویل مضمون کا متقاضی ہے اس لیے فالحال میں ناول ’ہمجان‘ بارے کچھ بات کرنا چاہوں گا۔
جب میں وہیل چیئر پر آیاگویا ایک نئی دنیاکا در مجھ پر کھل گیا۔اس دنیا میں ایک منفرد اقلیتی طبقہ دکھائی دیاجو کسی نہ کسی معذوری سے نبردآزما تھا۔یہ افراد باہم معذوری ایسے مسائل میں گھرے ہوئے تھے جن کی پرواہ کسی کو نہیں تھی۔میں نے اکثریت کو ذہنی دباؤ میں پایا۔ایسے سپیشل بچوں کے والدین سے سامنا ہوا جن کی آنکھوں میں یہی ایک سوال لکھا دیکھا”ہمارے بعد ان کا کیا ہوگا“۔ایسی خواتین باہم معذوری سے بات ہوئی جو سماجی رویوں سے خائف تھیں۔

بظاہر عملی زندگی میں متحرک مگر سبھی اپنی ذات میں تنہا اور اداس تھے۔خدا نے ہر ذی روح کو جوڑے میں پیدا فرمایا ہے تو پھر ان کا جوڑا کہاں ہے؟افراد باہم معذوری کی اکثریت رفیقِ حیات کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہے بالخصوص خواتین کے معاملے میں ہمارے سماج میں ٹیوبوز پائے جاتے ہیں۔یہ ایسا نادیدہ المیہ ہے جو گھروں کی چار دیواری میں مقید ہے گویا ایسی خواتین سماج کا حصہ ہوتے ہوئے بھی نظرانداز کردی جاتی ہیں۔میں نے کانفرسوں ورک شاپس وغیرہ میں قیمتی بروشرزدیکھے جن میں معذوروں سے ہمدردی اور معذوروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی ہدایات درج ہوتی ہیں اور ایونٹ ختم ہونے کے بعد یہی بروشرز اور ہدایت نامے کچرادان میں پھینک دیے جاتے ہیں کیونکہ افراد باہم معذوری کو ان ہدایات کی ضرورت نہیں ہوتی اور غیر معذور افراد ایسی خشک اور بد مزہ معلومات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔چناچہ میں ایک ایسا ناول تخلیق کرنے کا خواہاں تھا جس میں دلچسپی کے عنصر کے ساتھ احساس کے کچوکے بھی ہوں۔آنسوؤں سے دل پر جمی گرد کا صفایا ممکن ہوسکے۔اس حوالے سے میری تشویش ناول ہمجان میں عیاں ہے۔
ہمجان محبت کی روشنائی سے تخلیق کردہ ناول ہے ایسی محبت جو معذور افراد کے دلوں میں پنپتی ہے۔جس میں چاہے جانے کی تمنا کے ساتھ کسی من چاہے کو اپنانے کا ارمان ہو۔کیا معذور افراد بھی محبت کرنے کا حق رکھتے ہیں؟کیا معاشرے کے اس neglectedطبقے کو بھی لوگ سچے دل سے اپنا سکتے ہیں؟ان کے دل میں پنہاں حسرتوں کی آواز سن سکتا ہے؟یا پھر معذور افراد کو محبت کی دیوی سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہیے؟۔یہ ناول تحریر کرنے میں مجھے تقریباً دو برس کا عرصہ لگا۔ افراد باہم معذوری کے نفسیاتی جذباتی معاشی معاشرتی مسائل سے آگاہی کے بعد ہی میں نے اس موضوع پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔
’ہمجان‘ میرا اولین ناول ہے جو2012ء میں منظر عام پر آیا اور 2017ء میں دوسرے ایڈیشن کی اشاعت عمل میں لائی گئی۔ء2019میں ہمجان کا پہلا ایڈیشن دہلی (انڈیا) میں شائع ہوا۔ اس ناول کا انگریزی میں ترجمہ بھی آخری مراحل میں ہے۔ہمجان کو اعزاز حاصل ہے کہ یہ افراد باہم معذوری کے مسائل کو اجاگر کرنے والا اردو زبان میں پہلا ناول ہے۔