
مرحوم عبدالرحمان فاروق عوامی خدمت کے میدان میں سرگرمِ رہے

عبدالرحمان فاروق عوامی خدمت کے میدان میں ضلع میانوالی میں کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے۔۔جماعت اسلامی ضلع میانوالی کے صف اول کے رھنماں میں انکا شمار ھوتا تھا اپنے آبائی شہر کالاباغ میں انجمن تاجران کے صدر ھونے کی حیثیت سے تاجران کے مسال کے حل اور علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے ھر وقت متحرک رہنے والا یہ شخص رواں مہینے مختصر علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ھو گیا۔۔۔ اللہ پاک عبدالرحمان فاروقی بھائی کی زندگی بھر کی تمام حسنات، مساعی اور بے لوث قربانیاں قبول فرما انکی مغفرت فرماآخرت میں انکی بہترین مہمان نوازی کرتے ھو انکی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے۔آمین۔
۔ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دکھا گیا۔۔۔
۔شام غم تو کاٹ لی سحر ھوئی چلا گیا
عبدالرحمان فاروق مرحوم کی یاد میں گزشتہ روز کالاباغ میں ایک تعزیتی ریفرنس کا پروگرام منعقد ھوا جسکے مہمان خصوصی ناب امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سابق پارلیمینٹیرین جناب لیاقت بلوچ تھے۔۔اس پروگرام کا دعوت نامہ برادرم نور خان کے ذریعے مجھے موصول ھوا تو شرکت کی ٹھان لی گرمی کے موسم میں اور گرمی کی شدت میں مَیں عموماً گھر سے کم ھی نکلتا ھوں مگر اپنے مرحوم دوست عبدالرحمان فاروق کے تعزیتی ریفرنس میں شرکت سے محروم رھنا گوارہ نہ تھا دوسرا یہ کہ لیاقت بلوچ صاحب تشریف لا رھے تھے ان سے ملنے اور انکی گفتگو سننے کا بھی اشتیاق تھا یوں مقررہ وقت پر اس پروگرام میں شرکت کے لیے کالاباغ جا پینچا۔۔پروگرام کے منتظمین کا شکریہ کہ دیکھتے ھی عزت افزائی کی۔اس پروگرام میں جناب لیاقت بلوچ کے علاوہ امیر جماعت اسلامی ضلع میانوالی جاوید اقبال ساجد، مرحوم کے بیٹے عکرمہ، بھائی غلام فاروق اور اعظم فاروق اور عاصم فاروق سمیت مقامی سماجی رھنماں نے مرحوم کی زندگی اور عوامی و سماجی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا انکا تذکرہ سن کر شرکا مجلس میں سینکڑوں افراد کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ مقررین عبدالرحمان بھائی کا تذکرہ کرتے ھو آبدیدہ تھے جبکہ شرکا میں سے اکثریت کی آنکھیں آنسوں سے تر ھو رھی تھیں۔۔۔لیاقت بلوچ صاحب اپنے عزیز بھائی کو خراج تحسین پیش کرتے ھو? فرما رھے تھے کہ عبدالرحمان فاروق جماعت اسلامی کا قیمتی اثاثہ اور ایک سُچے اور کھرے انسان تھے جنکا دل دکھی انسانیت کے لیے ھر دم تڑپتا تھا جو ھر محاذ پر بے تیغ بھی لڑتا ھے سپاھی کی ماند ڈٹ جاتا تھا۔۔فتح و نصرت سے بے نیاز صرف اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے کوئی لمحہ ضاع نہیں ھونے دیتا ھر دم تیار ھر دم مصروف جدوجہد رھنے والے اپنے عزیز بھائی کی یاد میں ھم آج یہاں اکٹھے ھیں تو بہت سوں کے چہرے غمگین ھیں بہت سی داڑھیاں آنسوں سے تر ھیں مگر ھم تو اللہ کے سپاھی ھیں زندگی ملی ھے تو بھی اسی کے نام ھے اور اگر وقت پورا ھو چکا تو بھی راضی بارضا ھیں۔۔عبدالرحمان فاروق نے اعلا کلمتہ الحق کے لیے جدوجہد جاری رکھی ان پر اور انکے خاندان پر کی ابتلایں اور ازماشیں بھی آیں مگر ھیشہ ثابت قدم رھے۔۔انجمن تاجران کے پلیٹ فارم سے ناصرف علاقہ کی تعمیر وترقی کے لیے کام کیا بلکہ تاجران کے ھر پہلو کے مسال کو ھر متعلقہ فورم پر اٹھاتے رھے اور حل کرنے کی جستجومیں لگے رھے انکی جدوجہد ھم سب کے لیے مثال ھے۔۔ اب ضرورت اس بات کی ھے کہ ھم سب انکے مشن کی تکمیل کے لیے نی امنگوں نولولے اور تازہ دم ھوکر جدوجہد میں جُت جایں اور نظام ظلم و جبر کی جگہ نظام عدل و انصاف اور اسلام کا بول بالا قام کر دیں۔منبرو محراب کو اصلاح معاشرہ اور لوگوں کی سیرت و کردار کی تعمیر کے لیے استعمال کریں۔۔اسلام نہ تو دنیا کو ترک کرنے اور نہ دنیا میں غرق ھونے کی تعلیم دیتا ھے بلکہ اسلام کی دعوت یہ ھے کہ ساری اساشیں ھونے کے باوجود ھم اللہ کی بندگی اور تقویٰ کی روش اختیار کریں۔۔ھماری زندگی کا واحد مقصد اور زمہ داری یہ ھے کہ ھم عوام تک دین کا اصل مقصد مکمل پیغام اور اسکا صحیح تصور پیش کریں۔تاکہ اسکے نتیجہ میں ایک صالح معاشرہ وجود میں آے۔۔بدقسمتی سے ھمارا حکمران طبقہ قرآن و سنت ﷺ سے مسلسل روگردانی کا مرتکب ھو رھا ھے۔۔ھماری خود مختاری اور آذادی کو بیچ چوراھے آی ایم ایف کے ھاتھ بیچ کر ملک وقوم کو سودی معیشت کے چنگل میں دھکیل دیا گیا ھے۔تینوں بڑی سیاسی پارٹیاں ملک میں سیاسی معاشی معاشرتی اور لسانی مسال اور موجودہ بحرانوں میں برابر کی مجرم ھیں۔۔جانے والوں نے کوئی اچھے کام کیے نا آنے والوں سے عوام کو کوئی فادہ مل سکتا ھے ھمارے مسال کا حل اسلامی نظام میں مضمر ھے۔ضرورت ھے کہ مستقبل میں الیکشن متناسب نماندگی کے قانون کے تحت ھوں اس کے لیے اگر تمام سیاسی جماعتیں سنجیدگی کا مظاھرہ کریں تو آنے والے ماہ و سال بہترین نہج پر لا جا سکتے ھیں۔۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ھی ملک کو بحرانوں اور موجودہ مال سے نکال سکتی ھے ملک سود کے ساتھ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا۔پہلے وزیراعظم روتے تھے کہ ھمیں اقتدار سے کیوں نکالا اب عمران خان رو رھے ھیں کہ ھمارا اقتدار کیوں ختم کیا ھمارا جرم کیا ھے۔۔یہ صورتحال اس وقت تک تبدیل نہیں ھو گی جب تک تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر آپس میں مکالمہ نہ کریں کہ چاھے جو بھی آ اسکے عوامی مینڈیٹ کا احترام ھو اور اسکے مقررہ وقت سے پہلے کوئی مہم جوئی نہ ھو۔۔جو لوگ معیشت کو کنٹرول کر رھے ھیں اور ملک کی پالیسیاں چلا رھے ھیں کسی طرح ملک و قوم کے ساتھ مخلص نہیں ھیں۔۔جماعت اسلامی ایک ایسے معاشرے کی تشکیل چاھتی ھے جس میں نیک اور دیانت دار اھل قیادت برسر اقتدار آے۔۔عدل و انصاف کا بول بالا ھو۔کوئی اقتدار سے بے دخل ھو کر رونے پیٹنے والا نہ ھو بلکہ اقتدار کو خدمت خلق کا ذریعہ سمجھنے والا اور اللہ کے سامنے جواب دھی کا احساس رکھے۔تعزیتی ریفرنس میں مقامی سیاسی سماجی رھنما?ں سمیت مقامی تاجران بھی ایک اچھی خاصی تعداد میں شریک ھوے۔۔عبدالرحمان فاروق مرحوم صحافت سے بھی منسلک تھے مختلف مقامی و قومی اخبارات و رسال میں مختلف موضوعات پر مضامین اور تجزیے بھی لکھتے رھے اور مشہور زمانہ پریس ایجنسی کشمیر پریس انٹرنیشنل سے منسلک رھے اور بہت بہترین انداز میں رپورٹنگ کرتے تھے۔۔جماعت اسلامی کے ساتھ سکول کے زمانہ سے ھی منسلک ھو گ تھے بزم پیغام کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ میں کام کرتے رھے اور بعد ازاں جماعت اسلامی سے رشتہ ناطہ ایسا جوڑا کہ مرتے دم تک قا?م رھا۔۔انکے والد مرحوم حافظ غلام قاسم بھی جماعت اسلامی کے فکری رھنما?ں میں شمار ھوتے تھے جنکی کالا باغ کے عوام اور علاقہ کے لیے قربانیاں بے مثل تیبے مثال ھیں۔۔بدقسمتی سے عوام سو پیاز اور سو جوتے کھانے کی عادی ھو چکی ھے وہ اپنے محسنوں کی قدر نہیں کرتی بلکہ اپنے سر پر جوتے مروانے والوں کے شانہ بشانہ اسکی حمایت میں کھڑی ھو جاتی ھے حافظ غلام قاسم مرحوم جماعت اسلامی کے رکن اور رھنما تھے اس لیے ھر ظلم ھر جبر اور استحصال کے خلاف آھنی دیوار کی مانند کھڑے ھو جاتے تھے اور اپنی اولاد کو بھی یہی نصیحت کر گ ماشا اللہ انکی اولاد اور تمام خاندان جماعت اسلامی سے منسلک ھے۔۔عبدالرحمان فاروق بھائی کا قلمی نام رحمان بابا تھا اور اسی نام سے کالم وغیرہ بھی لکھتے تھے۔۔میانوالی سے ھمارے کچھ دوست احباب مہاڑ کے نام سے ایک اخبار نکالتے تھے اور اسکا اداریہ زیادہ تر رحمان بابا ھی لکھتے تھے۔۔ھفت روزہ ایشیا لاھور ماھنامہ ھمقدم لاھور پیغام ڈاجسٹ لاھور اور کی ایک رسالوں میں انکے مضامین چھپتیتھے۔

ایک شعلہ بیان مقرر ھونے کے ساتھ ساتھ ایک قاد کی بہت سی خوبیاں ان میں موجود تھیں۔۔جماعت اسلامی ضلع میانوالی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر کافی عرصے کام کرتے رھے۔ وہ وفات کے وقت بھی الخدمت فانڈیشن کے ضلعی صدر تھے جب بیماری نے شدت اختیار کی تو زمہ داری سے معزرت کر لی۔2010 میں جب تحصیل عیسیٰ خیل میں سیلاب نے تباھی پھیلای تو متاثرین سیلاب کی امداد اور بحالی کے لیے دن رات ایک کر دیا۔۔اور مختلف رفاعی اداروں تنظیموں اور مخیر شخصیات کی توجہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی جانب دلائی جسکی وجہ سیتحصیل عیسیٰ خیل میں مخیر افراد شخصیات اور اداروں کا آنا جانا شروع ھو گیا۔۔اور متاثرین کی امداد و بحالی کیکاموں میں ھمہ تن مصروف کار رھے۔۔اس لحاظ سے اگر انہیں باباخدمت کہا جاے۔۔بے جا نہ ھو گا۔۔۔