
ماحولیاتی آلودگی سے خصوصی افراد کو درپیش چیلنجز
تحریر: محمد سلیم ناصر

تندرستی ہزار نعمت ہے اور بلاشبہ تندرستی کا کوئی نعم البدل نہیں۔ دور جدید میں سانئس نے جتنی ترقی کی ہے اس سے کہیں زیادہ تیزی سے مہلک سے مہلک بیماریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اتنے جدید دور میں بھی اکثر بیماریوں کے علاج معالجہ سے ڈاکٹر حضرات مریض کو جواب دے دیتے ہیں کیا ہمارے ڈاکٹر اس قابل نہیں؟ یا پھر ہماری حکومت کے پاس وہ وسائل نہیں کہ کسی مرتے ہوئے انسان کو بچانے کے لیے آخری وقت تک تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے بچانے کی کوشش کرئے۔ اگر میں کہوں کہ ہمارے ڈاکٹر دنیا کے اچھے ڈاکٹرز میں سے ہیں تو یہ جھوٹ نہ ہو گا اور یہ بھی سچ ہے’ کہ ہمارے ملک کو اللّٰہ تعالیٰ نے وسائل کی دولت سے مالا مال کیا ہے مگر بحثیت ایک بگڑی ہوئی قوم ہمارے اندر بہت سی اخلاقی قدروں کو پامال کرنے کی غلط قسم کی عادات اس قدر پروان چڑھ چکی ہیں کہ جن کو بدلنا بظاہر اب ناممکن سا لگتا ہے کیونکہ ہم میں نہ تو برداشت کا مادہ ہے اور نہ ہی غلطی کو تسلیم کرنے کی ہمت۔ ” بہادر وہ نہیں ھوتا جو بدلہ لے لے’ بہادر وہ ہوتا ہے جو بدلہ لینے کی ہمت بھی رکھتا ہو مگر معاف کر دے۔” مگر ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی بجائے دوسرے انسان کو جان سے ختم کر دینے کی حد تک چلے جاتے ہیں مگر ہم میں اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی ہمت نہیں ہے اور ملک کے تمام اداروں میں ایسے ہی نظام کو تقویت ملی ہوئی ہے۔ جبکہ عرصہ دراز سے لوگ سیٹوں پر براء جمان ہو کر اختیارات کا دوطرفہ استعمال کر رہے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں نمازیں بھی جاری ہیں داڑھی بھی رکھی ہوئی ہے مسواک بھی ہر بار وضو سے پہلے کی جاتی ہے زکوٰۃ بھی دیتے ہیں اور ارکانِ اسلام کی تقریبآ پابندی کی جاتی ہے مگر یہ سب دیکھاوا ہے’ کرسی کے نیچے کیا ہو رہا ہے ٹیبل کے نیچے کیا چل رہا ہے کوئی غریب سائل آ جائے تو اس کو کس طرح سے زلیل کرنا ہے

اور اگر کوئی سرکاری افسر آ جائے یا پیسے والا آ جائے تو اس کی چاپلوسی کیسے کرنی ہے یا پھر اس کے آگے سر سر کا راگ آلاپتے ہوئے کیسے دم ہلانی ہے۔ اور اتفاق سے یہی وہ بیماری ہے یہ وہ دوہرے معیار کا کینسر ہے جو اس قوم کو حکمرانوں کی جانب سے تحفے میں ملا ہے۔
میں کچھ سرکاری اداروں کے کام کو اپنے قارئین کی نظر کرنے جا رہا ہوں جن کی ناقص کارکردگی کہہ لیں یا مال کی ہوس کہہ لیں جس وجہ سے انہوں نے اپنا کام ایمانداری سے نہیں کیا اور انکی نااہلی سے بہت سے دیگر ادارے بھی اپنا حصہ بٹورتے ہیں اور 22 کروڑ سے زائد عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کرتے ہیں مگر مال کی ہوس کے پجاریوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور حکمران طبقے کے لوگ ایک دوسرے کو غلط کہہ کر معاشرے میں نفرت لسانیت اور مزید بگاڑ کے ماحول کو تقویت دیتے ہیں۔ جبکہ بند کمرے میں آپس میں بیٹھ کر کھانے بھی کھاتے ہیں کاروبار بھی مشترکہ چلاتے ہیں اور رشتے داریاں بھی نبھاتے ہیں۔ خیر میں اپنی اصل بات پر واپس آتا ہوں۔ اس وقت دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ ماحولیاتی آلودگی کا ہے’ عالمی ماہرین کی رائے کے مطابق اس وقت دنیا میں بڑھتی ہوئی بیماریوں کی بڑی وجہ ماحول میں تیزی سے تبدیلیوں کا رونماء ہونا ہے’ اگر ہم دنیا کے ابتدائی دور کا تاریخ کی کتابوں میں موجودہ ترقی یافتہ دور سے موازنہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں انسانوں کی زندگی سو سال سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔ انسان بھی صحت مند اور طاقتور ہوتے تھے بیماریاں کم تھیں خوراک خالص اور ماحول آلودگی سے پاک ہوتا تھا لوگوں میں قوت برداشت بہت زیادہ تھی جو نہ صرف غلطی کو تسلیم کرنے کی ہمت رکھتے تھے بلکہ سدھارتے بھی تھے۔ لالچ طمع اور ہوس جیسے الفاظوں سے 90 فیصد لوگ تو واقف ہی نہیں تھے اس کے برعکس موجودہ دور کے انسانوں کی بات کروں تو ہر جگہ مجھے بگاڑ ہی بگاڑ نظر آتا ہے جس کی واضح مثال گزشتہ چند سالوں میں غیر قانونی ہاؤسنگ سکیموں کی صورت میں ہمیں ملتی ہے مشہور انگریز فلاسفر ڈارامہ رائٹر شیکسپیئر نے کہا تھا” کہ ایک وقت آئے گا جب دنیا کی آبادی بڑھے گی جنگلات کاٹے جائیں گے ریگستان ختم ہوتے جائیں گے۔” بلکل اس صورتحال کا اب ہم سامنا کر رہے ہیں۔ محکمہ جنگلات محکمہ ماحولیات کا آلودگی کو بڑھانے میں زیادہ کردار ہے محکمہ جنگلات کی ملی بھگت سے درختوں کا صفایا بڑی مہارت کیساتھ کیا جاتا ہے اور سالانہ ریکارڈ کو برقرار رکھنے کے لیے چند روٹین کے لکڑی چوری کے مقدمات کا اندراج کروا کر پھر خاموشی سے درختوں کی کٹائی شروع کر دی جاتی ہے اور ملکی تاریخ میں کبھی با اثر لکڑی چوروں کے خلاف مقدمہ تو دور کبھی درخواست تک نہیں دی گی۔ اسی طرح سے محکمہ ماحولیات نے کاغذی ریکارڈ مکمل کرنے کے لیے چند ایک ٹائر جلانے والی بھٹیوں اور دھواں چھوڑنے والے بھٹوں کے خلاف کارروائی ظاہر کرتے ہوئے چالان کاٹنے ہیں اور کچھ دنوں کے لیے بھٹیوں اور بھٹوں سیل کر کے بند کریں گے’ مگر چند دنوں کی بندش کے بعد کام پھر سے چل پڑے گا۔ بھٹوں کو زگ زیگ پر شفٹ کرنے کا اعلان تو دوسال قبل کیا جا چکا تھا مگر تاحال اس پر کوئی عمل درآمد نظر نہیں آتا اور ایسی تمام فیکٹریاں ‘ کارخانے اور ملیں جہاں ایسے پلانٹ لگے ہوئے ہیں جو ماحول کو بری طرح سے آلودہ کر رہے ہیں اور بہت سی ملیں ایسی ہیں جن سے خارج ہونے والا تیزابیت والا مادہ قریبی نہروں میں گرایا جاتاہے یا قریبی فصلات میں پھینک کر زرعی زمینوں کو برباد کر رہا ہے اور زیر زمین پانی کو آلودہ کر کے مہلک بیماریوں کا موجب بنتا ہے ظاہر بات ہے کہ فیکٹریاں کارخانے اور ملیں عام آدمی کی نہیں ھوتیں یہ بڑے مفاد پرست کاروباری مافیا کی ملکیت ہوتی ہیں جن کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے سرکاری افسران کے بھی “پر جلتے ہیں” ان کے بعد ماحول کو آلودہ کرنے میں ٹاؤن پلانرز اور بلڈرز کے بڑھتے ہوئے کینسر کا نام ہے جن میں اکثریت ان پڑھ قبضہ مافیاء کی ہے جنہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ وائٹ کلر کاروباری شخصیات کا لبادہ اوڑھ کر سونا اوگلتی زرعی زمینوں کو دیکھتے ہی دیکھتے اپنے مفاد کے لیے برباد کر کے رکھ دیا اور ان پر کنکریٹ کے جنگلات کھڑے کر دیئے۔ اس کام میں بہت سے سرکاری محکمے مل جل کر کسی بھی پرائیویٹ رہائشی سکیم یا ٹاؤن کی فائل کو کس طرح سے پاس کرتے ہیں وہ سب جانتے ہیں ہر اک دستخط پر لاکھوں کی بولی لگتی ہے اور اکثر جگہ پر تو ٹاؤن کی فائل کو اگلی ٹیبل تک پہنچانے کے لیے ٹاؤن میں پلاٹ وغیرہ بھی تحفے میں دیئے جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر افسر اوقات کے مطابق بہتی گنگاء میں ہاتھ دھوتا ہے۔
یہ وہ محرکات ہیں جو ماحول کو آلودہ کرنے میں سرفہرست ہیں عالمی ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کے موسم کے لیے کل رقبے کا کم از کم 7 فیصد رقبہ پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں جنگلات کل رقبے کا 3.5 فیصد تھے جو اب مزید کم ہو چکے ہیں۔

جس وجہ سے پچھلے چند سالوں میں جہاں دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیاں رونماء ہو رہی ہیں وہیں اپنے ملک میں بھی موسم میں بہت زیادہ تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں فضائی آلودگی میں اضافہ سے اوزون کی تہہ میں لگاتار کٹاؤ بڑھ رہا ہے جس سے موسم میں گرمی کی شدت میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے درجہ حرارت میں اضافہ سے جلدی امراض میں بھی اضافہ ہوا ہے اس کے علاؤہ کمزور افراد گرمی کی شدت کو برداشت نہیں کر پاتے تو دل کا دورہ پڑنے سے یا بخار میں شدت کیوجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور ہر سال موسمِ گرما میں گرمی کیوجہ سے اموات کا گراف بڑھتا ہے۔ خاص کر چھوٹے بچے بہت جلد مختلف امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ حکومت سالانہ عربوں روپے پولیو مہم پر خرچ کرتی ہے مگر پھر بھی خصوصی افراد کی بہت بڑی تعداد بچپن میں ہی پولیو کا شکار ہو کر ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہو جاتی ہے۔ اسی طرح آبی آلودگی کی وجہ سے سالانہ 65 فیصد لوگ ہیپاٹائٹس سی کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں وہ خصوصی افراد کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں فضائی اور ماحولیات آلودگی میں اضافے کی ایک اور اہم وجہ جو قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں وہ یہ کہ گلی محلوں میں اور بڑی شاہراہوں کے قریب اکثر جانور سٹرک پار کرتے ہوئے مر جاتے ہیں اسی طرح گائے بھینس وغیرہ یا کوئی بھی دیگر جانور مر جاتا ہے تو اس کو گڑھا کھود کر دبانے کی بجائے ہماری پڑھی لکھی سوجھ بوجھ رکھنے والی عوام یا تو اسے خالی پلاٹ وغیرہ میں پھینک دیتی ہے جس کے گلنے سڑنے سے نہ صرف ماحول میں تعفن سے وبائی امراض میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ مختلف پرندے اس مردار جانور کو کھاتے ہیں اور جگہوں پر مہلک بیماریوں کے جراثیم پہنچاتے ہیں اگر خالی پلاٹ میں نہیں پھینکتے تو کسی نہر وغیرہ میں پھینک دیتے ہیں جو پانی کو گندگی سے آلودہ کرتا ہے جو آبی حیات کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور انسانوں کے لیے بھی۔
یہ سچ ہے کہ انسان فطری طور پر لالچی ثابت ہوا ہے اور اسی وجہ سے انسان اپنے مفاد کے لیے ایسی غلطیاں کرتا ہے جن کے مستقبل میں ہولناک نتائج رونماء ہوتے ہیں اور جب تک انہیں اپنی ان غلطیوں کا احساس ہوتا ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور ان غلطیوں سے بہت سے لوگوں کے مفاد ہوتے ہیں۔ اور ایک غلطی کو سدھارنے کی بجائے یہ لوگ غلطی پر غلطی کرتے چلے جاتے ہیں اور اپنے آج کو بہتر بنانے کیلئے اپنی آنے والی نسلوں کے کل کو مشکلات کے گڑھے کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں خصوصی افراد میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ بھی ملاوٹ شدہ ناقص غذا اور ماحولیات و آبی آلودگی ہے۔
