
ضلع رحیم یار خان کی ایک ذہین معذور لڑکی کی کامیاب کہانی
تحریر و ترتیب محمد سلیم ناصر”

کہتے ہیں کہ تندرستی ہزار نعمت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تندرستی ہو تو انسان ہرمشکل کام کو سر انجام دے جاتا ہے مگر جب کوئی انسان قدرتی طور پر تندرستی کی نعمت سے محروم پیدا ہو تو زندگی میں ہر قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر اپنوں کی اور غیروں کی بہت سی تلخ باتوں کو نہ چاہتے ہوئے برداشت کرنا پڑتا ہے اور پھر جس سوسائٹی اور سسٹم کا ہم حصہ ہیں وہاں پر تو کسی نہ کسی نعمت سے محروم سپیشل فرد کو ہمت اور حوصلہ دینے کی بجائے اس کو ہر خواہش پر ہر کام پر اس کی معذوری کا طعنہ دیا جاتا ہے آخر ایک وقت آتا ہے کہ کم ہمت سپیشل افراد اپنے آپ کو حالات پر چھوڑ دیتے ہیں اور محتاجی کے راستے پر دوسروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں مگر ان میں سے بہت کم سپیشل افراد ایسے بھی ہیں جو سب کی باتوں کو اور طعنوں کو برداشت کرتے ہیں اور زندگی میں کچھ کرنے کا جزبہ لیکر ہمت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے ہیں کیونکہ ہر اندھیری رات کے بعد روشن سویرا ہے اور لہروں کو چیر کر جو آگے بڑھتا ہے وہی منزل تک پہنچتا ہے آج “سپیشل پاکستان” میگزین کے ذریعہ سے میں اپنے قارئین کو ایک ایسی سپیشل لڑکی سے ملوانے جا رہا ہوں جس کے بارے آپ جان کر حیران ہوں گے کیونکہ جب انسان مشکل سے مشکل کام کو بھی کرنے پر آئے تو اللّٰہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہو کر اس مشکل کو آسان بنا دیتی ہے
ضلع رحیم یارخان چک نمبر 135/P میں 3 مارچ سال 2001ء میں ایک مڈل کلاس گھرانے میں بہت ہی پیاری بچی نے جنم لیا مگر پیدائشی طور پر بچی کے دونوں بازو اور دونوں ٹانگیں مکمل نہیں تھیں بچی کا نام والدین نے کرن رکھا آ گے کی کہانی سنتے ہیں کرن کی زبانی۔

س:- کرن آپ ہمارے قارئین کو بتائیں کہ آپ نے بچپن سے میٹرک تک تعلیم کے دوران کن مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے گزارا۔
ج:- جی میں نے جب ہوش سنبھالا تو خود کو ایک نارمل انسان کی بجائے بازوؤں اور ٹانگوں کی نعمت سے محروم پایا شاید میری دیکھ بھال سے کچھ وقت فری رہنے کے لیے میرے گھر والے مجھے گاؤں کے پرائمری سکول میں دوسرے بہن بھائیوں کے ہمراہ بھیج دیتے اور میں نے وہاں جاتے ہوئے کچھ ہی عرصے بعد یہ بات طے کر لی کہ جو بھی ہو مین نے پڑھنا ہے بس پڑھائی کا فیصلہ کرتے ہوئے میں نے اپنی منزل کا نہیں سوچا کہ کیا بننا ہے بس میرے ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ مجھے پڑھنا ہے اور سکول جاتی اور کلاس میں میں لکھنے کا کام اپنے منہ میں پنسل پکڑ کر کرتی شروع میں مجھے تھوڑی دشواری ہوئی مگر پھر پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اللّٰہ تعالیٰ نے منہ سے لکھنے میں میری مدد کی اور میں عام بچوں کی طرح سے منہ سے پنسل پکڑ کر لکھنے لگ گی اور جب تھک جاتی تھی تو میری دائیں بازو کندھے سے بلکل تھوڑی سی آ گے کو نکلی ہوئی ہے وہاں پنسل رکھ کر گردن کو جھکا کر پنسل کو پکڑ لیتی ہوں اور پھر لکھنا شروع کر دیتی ہوں میں جب پہلی بار پرائمری کے امتحانات میں سنٹر میں گی تو تمام ٹیچرز کہنے لگے کہ بیٹا تم کیسے لکھو گی میں نے کہا سر آپ کے سامنے ہی ہوں دیکھ لیجیے گا کہ کیسے لکھتی ہوں تو جب پیپر شروع ہوا میں نے منہ میں پین پکڑ کر لکھنا شروع کر دیا اور پھر جب تھک گی تو گردن اور تھوڑے سے بازو میں پین لگا کر لکھتی رہی تب وہاں پر ٹیچرز نے میری ویڈیو بھی بنائی بس پھر میں ایسے ہی پڑھتی ہوئی میٹرک تک پہنچ گی میں نے سال 2017ء میں چک 192/P گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اور پھر میں نے سال 2019ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین سے ایف ایس سی فرسٹ ڈویژن میں کی اور اب میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج خواجہ فرید سے بی ایس انگلش کر رہی ہوں جو ابھی جاری ہے مگر مجھے بی ایس تک پہنچتے ہوئے بہت سی ذہنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور لوگوں کی ناقابلِ برداشت تلخ باتوں کو بھی تحمل اور حوصلے سے برداشت کرنا پڑا۔ غیر تو غیر میرے اپنے قریبی رشتے دار بھی میرے گھر والوں کو باتیں سناتے کہ یہ معزور ہے اس کو پڑھا کر کیا کرو گے اس نے کون سا کوئی نوکری کرنی ہے تب مجھے بہت غصہ آتا تھا مگر میں برداشت کرتی تھی اور میں نے کبھی اللّٰہ تعالیٰ سے اپنی معذوری کا شکوہ نہیں کیا بلکہ دعا کرتی تھی کہ یا اللّٰہ مجھے کامیابی دے آج جب اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے اس مقام تک پہنچا دیا ہے تو یہی لوگ جو باتیں کرتے تھے اب شرمندہ ہوتے ہیں
س:- کرن آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے جب بڑی دور سے بڑے بڑے لوگ آپ کو ملنے آتے ہیں؟
ج:- مجھے بہت خوشی ہوتی ہے جب لوگ اور میڈیا والے نیشنل اور انٹرنیشنل چینلز اور اخبارات والے جب مجھ سے انٹرویو لینے آتے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے وزیر اعلیٰ شہباز شریف جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے میرے گھر تشریف لائے تھے انہوں نے مجھے انعام بھی دیا اور اب وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی میرے گھر تشریف لائے جب میں نے بی ایس انگلش میں داخلہ لیا یہاں میں بتاتی چلوں کہ ہم تین بہنیں ہیں اور دو بھائی ہیں میں بہنوں میں چھوٹی ہوں میرا ایک بھائی فرسٹ ائیر میں ہے جبکہ ایک 9 کلاس میں پڑھ رہا ہے تو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے میرے بھائی کی سرکاری محکمہ میں نوکری کا اعلان بھی کیا ہے۔
س:- کرن آپ نے مستقبل میں کیا سوچا ہے آ گے کیا کرو گی۔
ج:- میں نے ابھی تو اپنی تعلیم مکمل کرنی ہے میری دلی خواہش ہے کہ میں سی ایس ایس کروں اور اس کے بعد سول سیکٹر میں جاب کے ساتھ اپنے جیسے سپیشل افراد کے لیے کام کروں ان کی جتنی ہو سکے مدد کروں اور ان میں ہمت پیدا کروں کہ وہ اپنی معزوری کی وجہ سے کسی کے محتاج نہ بن سکیں کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں بلکہ خود اس قابل ہو جائیں کہ لوگ ان سے ملنے کا اشتیاق کریں مجھے اس مقام تک پہنچانے میں میرے گھر والوں نے میرا بڑا ساتھ دیا ہے آج میرے گھر والوں کو مجھ پر فخر ہے۔

س:- کرن آپ قوم کو کوئی پیغام دینا چاہیں تو کیا پیغام دیں گیں۔
ج:- میں اپنی قوم کو یہی پیغام دینا چاہوں گی کہ سپیشل افراد کی حوصلہ شکنی نہ کریں بلکہ ان کے اندر ہمت اور حوصلہ پیدا کریں اور ان کو منزل تک پہنچانے میں اندھیری رات میں چراغ کا کام کریں اور میں ایسے سپیشل افراد کو بھی یہی پیغام دوں گی کہ اپنی معذوری کو کمزوری نہ بنائیں دوسروں کی محتاجی سے بہتر ہے کہ اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے اجاگر کریں اور اپنے آپ کو منوائیں اور میں ایسے سیاہ کار لوگوں کو بھی یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ جو سپیشل افراد کی تھوڑی بہت مدد کرتے ہوئے فوٹو سیشن کروا کر اور ویڈیو بنوا کر مختلف چینلز اور اخبارات کی سرخیوں کی زینت بن کر سپیشل افراد کے نام پر این جی اووز بنا کر ملک اور قوم کو لوٹنے کا آسان طریقہ اپناتے ہیں اب اس طرح کے سستی شہرت اور دیکھاوے کے ثواب کے نام پر چند لاکھ خرچ کر کے کروڑوں کی فنڈنگ کر کے کرپشن کرنا اب بند کریں۔