
خصوصی افراد کو ماڈلنگ کا پلیٹ فارم فراہم کرنے والے وحید اللہ جان کی کہانی
تحریر: ثاقب لقمان قریشی

وحید اللہ جان کا تعلق خیبر پختون خواہ کے ضلع پشاور سے ہے۔ عمر پینتیس سال ہے۔ مسکولر ڈسٹرافی کے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ تعلیم اور وسائل کی کمی کے باوجود وحید نے ایسا منفرد کام کر ڈالا جس کی مثال نہیں ملتی۔ وحید نے سوشل میڈیا پر “ویل ماڈل پاکستان” کے نام سے ایک پیج بنایا۔ اس پیچ کو خصوصی افراد کی طرف سے اتنی پزیرائی ملی کہ اب تک اس پیج پر ملک اور دنیا بھر سے تین ہزار سے زائد افراد باہم معذوری ماڈلنگ کے جوہر دکھا چکے ہیں۔
وحید تہکال بالا پشاور کے رہائشی ہیں۔ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ والد صاحب کپڑے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ خاندان چار بھائی بہنوں پر مشتمل ہے۔ وحید کے علاوہ سب نے ماسٹرز تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔
وحید پیدائشی طور پر نارمل نظر آتے تھے۔ مرض کی شناخت اس وقت ہونا شروع ہوئی جب انھوں نے نارمل بچوں کی طرح بھاگ دوڑ اور جسمانی سرگرمیوں میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ ابتداء میں عام ڈاکڑوں کو دکھایا گیا جنھوں نے مرض کو ایک عام کمزوری کے ساتھ جوڑ دیا۔ چار سال کی عمر میں مسکولر ڈسٹرافی کی تصدیق ہوئی۔ ڈاکٹرز نے اسے لاعلاج مرض گردانتے ہوئے والدین کو شدید مایوسی میں مبتلا کر دیا۔ زندگی اسی طرح مشکلات کے ساتھ گزرتی چلی گئی۔
جوانی میں اسلام آباد کی ایک لیباٹری سے ای-ایم-جی ٹیسٹ ہونے پر مایوپیتھیا نامی مرض کی شناخت ہوئی۔ اگر مرض کی شناخت چار سال کی عمر میں ہی ہو جاتی اور اسی کے مطابق علاج اور احتیاتی تدابیر اختیار کی جاتیں تو صورتحال کافی مختلف ہوتی۔

سکول جانے کی عمر کو پہنچے تو گھر کے نزدیک ترین سکول میں داخلہ کروا دیا گیا۔ گھر والوں اور دوستوں کے تعاون سے سکول کا دور بہترین گزرا۔ میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ عمر کے ساتھ ساتھ مرض بڑھتا چلا گیا، سولہ سال کی عمر میں مکمل ویل چیئر پر آگئے۔ تعلیم سے لگاؤ رکھنے کے باوجود رسائی، بیماری اور وسائل کی کمی کی وجہ سے مزید تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ گھر کے نزدیک انسٹیٹیوٹس سے کمپیوٹر کورسز اور
Computer DIT Diploma
حاصل کئے اور پھر سلسلہ مکمل طور پر رک گیا۔
2010ء تک وحید والد صاحب کی کپڑوں کی دکان پر بیٹھا کرتے تھے۔ ویل چیئر پر منتقل ہونے کے بعد تعلیم کا سلسلہ اور دکان پر بیٹھنا سب ختم ہوگیا۔ وحید ڈپریشن کا شکار ہوگئے۔ ویل چیئر کو دیکھ کر خوب رویا کرتے اور خدا سے سوال کرتے کہ “میں ہی کیوں” دنیا کے سارے دکھ اور تکالیف میرے لیئے ہی کیوں؟
ڈپریشن کے اس طویل دور میں سب سے ذیادہ ساتھ والدین اور خاص کر والدہ صاحبہ نے دیا۔ جو سائے کی طرح وحید کے ساتھ رہتیں اور خوب سمجھایا کرتیں۔ وحید کے قریبی دوستوں کو گھر بلالیتیں جن کی باتیں جینے کا حوصلہ دیتیں۔ ڈپریشن کا یہ سلسلہ سال بھر جاری رہا۔ ماں باپ کی محبت اور دوستوں کے ساتھ نے مشکل وقت سے نکلنے میں بھر پور مدد فراہم کی۔
معذوری کو دل سے تسلیم کرنے کے بعد وحید کی زندگی تبدیل سی ہوگئی۔ وحید نے الیکٹرک ویل چیئرز کی خرید و فروخت کا چھوٹا سا کاروبار شروع کر لیا۔ یہ کاروبار 2005 سے اب تک کامیابی سے چل رہا تھا۔ جسے کوڈ-19 کی لہر نے شدید متاثر کیا۔
معذوری اور مالی مشکلات کے باوجود وحید سماجی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیتے ہیں۔ 2013 سے
صیاد ویلفیئر آرگنائزیشن(مردان)
Sayyad Welfare Organization
اور2019 سے حبیب ایم ڈی ہوپ ٹرسٹ (اسلام آباد)
Habib MD Hope Trust
کے مستقل ممبر ہیں، جو کہ شدید معذوری کے شکار افراد کیلئے کام کرنے والے ادارے ہیں۔ ان اداروں کے ایونٹس اور فنڈریزنگ میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ء 2017 میں وحید نے پشاور میں ہونے والے ویل چیئر ماڈلنگ کے مقابلے میں حصہ لیا اور مقابلے میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ مقابلے نے وحید کو تھوڑا مختلف سوچنے پر مجبور کر دیا۔ انسان فطری طور پر رنگوں سے پیار کرتا ہے۔ اچھا اور منفرد دکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس فلسفے کو مدنظر رکھتے ہوئے وحید نے 2017 میں ویل ماڈل پاکستان کے نام سے فیس بک پر ایک پلیٹ فارم بنایا۔ اپنی چار عدد بہترین تصاویر اور بنیادی معلومات کے ساتھ ہر کوئی ویل ماڈل پاکستان بن سکتا ہے۔

وحید کے فلسفے کو مختصر سے عرصے میں اتنی پزیرائی ملی کہ پورے پاکستان سے خصوصی افراد ان سے رابطہ کرنے لگے۔ خصوصی لڑکے اور لڑکیاں وحید اور انکی ٹیم کو اپنی تصاویر ارسال کرتے تصاویر کی چانٹ کھانٹ کے بعد انھیں پیج پر چلا دیا جاتا۔ پورے ملک کے خصوصی افراد ان تصاویر کی تعریف کرتے۔ اس عمل سے ایک طرف خصوصی افراد میں اچھا پہننے اور دکھنے کا رجحان فروغ پایا تو دوسری طرف خصوصی افراد کو پورے ملک پھیلے اپنے جیسے لوگوں کو جاننے کا موقع ملا۔
ویل ماڈل پاکستان کو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر سے پزیرائی ملنا شروع ہوگئی۔ دنیا کے مختلف ممالک سے خصوصی افراد نے ویل ماڈل پاکستان پر اپنی ماڈلنگ کی تصاویر بھیجنا شروع کر دیں۔ ویل ماڈل پاکستان پر امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ سمیت مختلف ممالک کے پانچ سو سے زائد ماڈلز اپنی ماڈلنگ کے جوہر دکھا چکے ہیں۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود آج تک وحید سے کسی حکومتی نمائندے، بین الاقوامی این جی او یا کسی بڑے چینل نے رابطہ نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے وحید اور انکی ٹیم شدید مایوسی کا شکار ہے۔ فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر اچھی خاصی فالونگ کے باوجود سبکرائبرز کی اتنی تعداد نہیں ہوئی کہ ان پلیٹ فارم سے آمدنی کا سلسلہ شروع ہوسکے۔
وحید کہتے ہیں کہ اگر حکومت، بین الاقوامی این جی اوز اور میڈیا انکا ساتھ دے تو یہ پورے ملک میں ویل چیئر ماڈلنگ کے شوز منعقد کرسکتے ہیں۔ جس کی مدد سے خصوصی افراد میں پائی جانے والی مایوسی کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔ خصوصی افراد میں اچھا پہننے اور دکھنے کا رجحان فروغ پا سکتا ہے۔ پھر ہمارے ویل ماڈلز دنیا بھر کے ماڈلنگ کے شوز میں حصہ لے کر ملک کا نام روشن کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
