
اسٹیفن ہاکنگ سائنسی دنیا کا ایک عظیم نام
اسٹیفن ہاکنگ جنہیں دنیا آئن سٹائن کے بعد سب سے بڑا نظریاتی طبیعیات دان مانتی ہے۔ وہ ڈاکٹروں کی رائے کے بر عکس خدا کی مرضی سے نہ صرف زندہ رہے بلکہ اب تک سائنس کی کئی گھتیاں سلجھا تے رہے۔ یہ اسٹیفن ہاکنگ تھے جو بچپن ہی سے مشکلات کا شکار رہے۔ پیدائش کے وقت جنگ عظیم دوم کے بادل ساری دنیا پر چھائے ہوئے تھے۔ ان کی ماں کی شدید خواہش کے باوجودوہ آکسفورڈ میں نہ رک سکی کیونکہ وہاں جرمنوں کے حملے کا زیادہ خطرہ تھا۔ جب وہ پیدا ہوئے تو عیسوی کیلنڈر کی تاریخ 8 جنوری 1942 ء تھی۔ ان کی پیدائش سے ٹھیک تین سو سال پہلے8 جنوری 1642 ء کے روز اٹلی کے مشہور سائنسدان گلیلو گلیلی کا انتقال ہوا تھا اسٹیفن ہاکنگ نے دس برس کی عمر میں محض اپنی ذہانت کے بل بوتے پر ویسٹ منسٹر اسکول میں داخلہ لیا وگرنہ وہاں داخلے کی شرائط زیادہ سخت تھیں۔کمزور جسم اور چھوٹے قد کی وجہ سے وہ اسکول کے یونیفارم میں بڑے بھونڈے نظر آتے تھے۔ان کے ہم جماعت ساتھیوں کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ بات کرنے سے پہلے کافی دیر تک سوچا کرتے تھے۔ جب وہ بارہ برس کے ہوئے تو ان کے دوستوں نے اس بات پر شرط لگائی کہ وہ زندگی بھر کچھ نہ کر سکیں گے۔ ان کے ساتھی تعلیم کے ساتھ ساتھ موسیقی میں بھی مہارت رکھتے تھے مگر وہ اس میدان میں کچھ بھی نہ کر سکے۔ شروع ہی سے ان کے ہاتھوں میں کمزوری واقع ہو گئی تھی مگر ان کیلئے ا سکول کا ماحول بڑا تخلیقی اور ساز گار ثابت ہو رہا تھا۔ والد انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر ان کا رجحان ریاضی کی طرف تھا انہوں نے اپنے پیشے اور کیر ئیر کے لیے جو انتخاب کیا وہ نہ صرف ان کی ذات کیلئے مفید بلکہ جدید سائنس کیلئے بھی بہتر ثابت ہو ا۔ چناچہ انہوں نے پہلے آکسفورڈ اور پھر کیمرج میں ریاضی اور نظری طبیعات کی تعلیم حاصل کی۔ اس دوران وہ انتہائی پُرجوش تھے کہ سائنسی تحقیق کے میدان میں وہ انقلاب برپا کر دیں گے مگر۔۔۔جب ان کی عمر 21 سال ہوئی تو انہیں ایک ایسی بیماری لاحق ہو گئی جس کا کوئی علاج ہی نہیں تھا۔ ڈاکٹروں نے اب واضح طور پر بتا دیا تھا کہ وہ اب زیادہ سے زیادہ دو سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔

یہ باتیں انہیں زندگی کے مقصد سے ہٹانے کیلئے کافی تھیں۔ انہیں محسوس بھی ہوا کہ اب اس مقام پر وہ ہمیشہ کے لیے زیرو ہو گئے ہیں اور ان کے سارے خواب ادھورے رہ جائیں گے۔۔۔۔ یہی وہ لمحات تھے جب ان کے اندر عزم و ارادے کی کرن پھوٹی اورپھر انہوں نے اپنی تمام تر قوت ارادی کو جمع کر کے فیصلہ کیا اور وہ فیصلہ یہ تھا کہ ”میں ہمت نہیں ہاروں گا“ اور اسی فیصلے نے بالا آخر انہیں سائنس کی دنیا میں ہیرو بنا دیا۔ انہوں نے معذوری کے باوجود اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی محنت سے اتنی قابلیت پیدا کر لی کے وہ کیمرج یو نیورسٹی میں حساب کے پروفیسر رہے۔ انہیں وہ کرسی پیش کی گئی جو ”نیوٹن چیئر“ کے نام سے منسوب ہے۔
1998ء میں ان کی ایک کتاب ”وقت کی مختصر تاریخ“ A brief history of time شائع ہو کر اس قدر مقبول ہوئی کہ یکے بعد دیگرے اس کے چودہ ایڈیشن چھاپنے پڑے۔ یہ دنیا کی سب سے زیادہ بکنے والی کتاب ثابت ہوئی۔ اسٹیفن ہاکنگ ایک مفلوج انسان تھا بیماری نے ان کی زندگی تو نہ لی مگر زندگی بھر کیلئے معذور کر دیا۔ وہ دو لفظ بھی نہیں بول سکتے تھے ہر وقت اپنی وہیل چیئر پر بیٹھے رہتے تھے مگر وہ اپنی قوت ارادی سے اگر کسی چیز کو حرکت دے سکتے تھے تو وہ صرف اپنے چہرے کے عضلات کو یا اپنے بائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کو۔ خود کھا نہیں سکتے اور نہ ہی کپڑے پہن سکتے تھے گفتگو کیلئے ان کے پاس صرف ایک ہی ذریعہ تھا اور وہ ایک خاص مشین جو آواز کو چھان کر شکستہ اور ادھورے الفاظ سننے والوں تک پہنچاتی ہے۔ ایک کمپیوٹر ان کی وہیل چیئر سے جڑا ہوا تھا اور کمپیوٹر آواز کی خاص مشین سے منسلک تھا۔ برقی نظام ان سب کو آپس میں جوڑے رکھتا تھا۔ وہیل چیئر، کمپیوٹر، آواز کی مشین اور مفلوج اسٹیفن ہاکنگ۔ یہ تھا اس عظیم سائنسدان کا حال جسے مشہور زمانہ نیوٹن چیئر پیش کی گئی تھی۔ یہ کرسی ان کے عزم وہمت اور ارادے کی علامت ہے۔

وہ خود اپنی بیماری کے دوران گزرنے والے حالات کا زکر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ”میں ریسرچ کا طالب علم تھا۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں ایک ایسے مسئلے کے حل کا منتظر تھا کہ جس کے ساتھ مجھے پی۔ ایچ۔ ڈی کا تحقیقی مقالہ مکمل کرنا تھا دو سال پہلے ڈاکٹروں نے تشخیص کیا تھا کہ مجھے ایک مہلک بیماری لا حق ہو چکی ہے مجھے باور کرایا گیا تھا کہ میرے پاس زندہ رہنے کیلئے صرف ایک یا دو سال ہیں۔ ان حالات میں بظاہر میرے لیے پی۔ ایچ۔ ڈی پر کام کرنے کیلئے زیادہ وقت نہیں تھا مگر دو سال گزرنے کے بعد بھی میرا حال خراب نہیں تھا۔ در حقیقت واقعات میرے لیے زیادہ بہتر ہوتے جا رہے تھے۔“
اس بیماری میں ان کے جسمانی اعضاء آہستہ آہستہ مفلوج اور ناکارہ ہو گئے۔ ایک طرف ان کا مرض بڑھ رہا تھا۔ تو دوسری طرف طبیعات کے نظریات کا جنون ان کے اعصاب پر سوار ہو رہا تھا۔ یہ جنون اور شوق ہی تھا کہ جس نے ان کی موت کی طرف بڑھتے ہوئے جسم میں زندگی کی تمنا پیدا کر نے والی قوت پیدا کر دی تھی اور قدرت کو بھی یہ ہی منظور تھا۔ انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بیماری کے ساتھ مضبوط ارادے کے ساتھ ڈٹے رہے۔ ابھی وہ بی۔ ایس۔ سی کے طالب علم تھے کہ انہیں خلائی سیارہ سوراخ میں دلچسپی پیدا ہوئی انہوں نے مسلسل تجربوں او مشقوں سے ثابت کیا کہ سیاہ سوراخوں کے عین مرکز میں واحدیت پائی جاتی ہے جو بے انتہا کثافت اور کشش کی حامل ہے۔ یہ ایسے نقطے ہیں جن کی کوئی حد اور سمت نہیں۔ کچھ عرصے بعد اپنی تحقیق کی روشنی میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ یقینا یہ پوری کائنات واحدیت پر پیدا ہوئی ہو گی۔ بی۔ ایس۔ سی کرنے کے بعد کیمرج یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو منتخب ہوئے تو انہوں نے تحقیق کے بعد بتایا کہ بگ بینگ (وہ زور دار دھماکہ جس کے نتیجے میں کائنات پیدا ہوئی تھی) سے ننھے ننھے سوراخ پیدا ہوئے تھے۔ ان میں ہر سوراخ کا سائز پروٹون ذرے کے برابر تھا۔ اس وقت یہ نظریہ قائم تھا کہ سیاہ سوراخ میں کوئی چیز حتیٰ کہ روشنی بھی نہیں گزر سکتی۔ اسٹیفن ہاکنگ نے کوانٹم تھیوری سے استفادہ کرتے ہوئے اس عالمگیر نظریے کو باطل قرار دیا اور بتایا کہ سیاہ سوراخوں سے صرف روشنی ہی نہیں گزر سکتی بلکہ ان سے براہ راست روشنی، شعاع اور حرارت بھی پیدا ہوتی ہے۔ پہلے پہل تو سائنسی حلقوں نے ان کے اس انوکھے خیال کا مذاق اُڑایا۔ بالآخر وہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ ہاکنگ کا خیال صحیح ہے۔ اب ان سیاہ سوراخوں سے نکلنے والی اشعاع کا نام ہی ”ہاکنگ اشعاع“ رکھ دیا گیا۔

ایک دفعہ ایک نشریاتی ادارہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اسٹیفن ہاکنگ نے کمپیوٹر سے جڑی ہوئی آواز کی مشین پر ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں یہ حوصلہ مندانہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ”اگر آپ جسمانی طور پر معذور ہو گئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ذہنی طور پر بھی معذور ہو جائیں۔ میں اپنے کام میں ایک کامیاب آدمی ہوں۔ میں نے اپنی کتاب لکھی اور وہ بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔ آپ اس کے زیادہ مجھ سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ بیماری سے پہلے میں زندگی سے بہت زیادہ توقعات رکھنے کے باعث بوریت محسوس کرتا تھا لیکن جب توقعات صفر پر آجائیں تو آدمی کو جو چیز بھی میسر ہو تو وہ اسے صبرو شکر کے ساتھ قبول کرتا ہے اسی صبروشکر کے ساتھ خوشیوں کا آغاز ہوتا ہے۔“
سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ذہنی صلاحیتیں انسان کی ہر کمزوری کی تلافی کر دیتی ہیں۔ انسان کا ارادہ ہر قسم کی رکاوٹوں پر غالب آ جاتا ہے اور وہ ہر ناکامی کے بعد اپنے لیے کامیابی کا راستہ نکال لیتا ہے۔
اسٹیفن ہاکنگ نے 14مارچ2018ء کو وفات پائی۔