
قابلیت، حوصلہ افزائی کی محتاج ہے
تحریر: حاجرہ ممتاز
جناب سپیکر!! ہم آخر کب تک اسپیشل لوگوں کی زندگی کو سہل کرنے کے بجاۓ ان کو خود پر منحصر رکھیں گے۔ پوری دنیا میں یہ افراد اپنے سب کام حتی الامکان خود کرتے ہیں لیکن یہاں پر ان کو بار بار احساس دلا کر خود ترسی کا شکار کر دیا جاتا ہے۔۔۔۔مشکبار کی تقریر ابھی جاری تھی۔۔!
آج کے تقریری مقابلے کا موضوع تھا “اپاہج اور بھی کردیں گی یہ بیساکھیاں تجھ کو”۔۔، موضوع کوئی بھی ہو مشکبار کے لئے نتیجہ فقط جیت ہی ہوا کرتا تھا۔ اپنی تقریر مکمل کر کے وہ تالیوں کی گونج میں سٹیج سے نیچے اتر رہی تھی۔ اسلام آباد کی ایک نامور یونیورسٹی کے پنڈال میں سب لوگوں کے چہروں پر تحسین واضح تھی۔ اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا،وہ بچپن سے اب تک کئی تقریری مقابلوں میں بے شمار میڈلز اور سرٹیفکیٹس لے چکی تھی۔ نتائج کا اعلان ہوا تو اسکو ایک اور میڈل مل گیا۔۔۔!
_
الٹراساؤنڈ مشین کے بستر پر لیٹی وہ قطری خاتون ڈاکٹر کی بات غور سے سننے کے بعد بس اتنا بولی: فتابارک اللّه احسن الخالقین۔ اور ڈاکٹر کو جواب مل چکا تھا۔ ڈاکٹر کے چہرے پر تذبذب اور تفکر نمایاں تھا ۔لیکن فاطمہ خاتون چہرے پر مسکراہٹ اور متانت لئے وقار سے سر اٹھاۓ اپنے شوہر کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر رہی تھیں۔ آگے کا سفر دنوں سے مہینوں پر گزرتا رہا اور ڈیلیوری کا وقت آن پہنچا۔ پورا ہسپتال دعا گو تھا کہ اب تک پورے ہسپتال میں فاطمہ خاتون کی بہادری اور انکے شوہر کی وفاداری، اودھ کی خوشبو کی مانند پھیل چکی تھی۔۔! ننھا غنیم المفتاح گو کہ نیچلے دھڑ سے محروم تھا مگر بے حساب مامتا اور باپ کی شفقت میں کوئی کمی نہیں تھی۔۔!
__
پورے گھر کو قمقموں سے سجایا جا رہا تھا کہ مشکبار کی سالگرہ تھی۔ اپنے بھائیوں کی لاڈلی اور گھر بھر کی آنکھوں کا تارا تھی وہ۔ گو کہ یہ تئیسویں سالگرہ تھی لیکن جوش و خروش تیسری سالگرہ سے کم نہ تھا۔ رات کے آخری پہر تحفے کھولتی مشکبار نے ہمیشہ کی طرح ایک تہ شدہ بوسیدہ کاغذ کھولا جس کی آدھی سیاہی مٹ چکی تھی۔ اس پر ہاتھ پھیرتے، تحریر پڑھتے آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے وہ ماضی کی حسین یاد میں کھو گئی۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ پورے ضلع کے اسکولوں کے مابین ہونے والے اعلی سطح کے تقریری مقابلے میں جماعت چہارم کی طالبہ نے اوّل انعام حاصل کیا تھا۔ تقسیم انعامات کی تقریب میں ڈائریکٹر ایجوکیشن بورڈ نے جب یہ پوچھا کہ تقریر لکھی کس نے تھی تو وہ فخر سے بولی “میں نے خود”۔ تب تو اسکا قد بھی ڈائس تک نہیں آتا تھا اور وہ کرسی پر کھڑے ہو کر تقریر کیا کرتی تھی۔۔ اور آج وہ لمبی پتلی سی لڑکی بن چکی تھی۔ حسن اور ذہانت سے مالا مال مشکبار کو یقین تھا کہ زندگی میں کبھی کوئی رکاوٹ کوئی دشواری ہے ہی نہیں۔۔۔!
ننھے غنیم کو زندگی رکاوٹوں اور دشواریوں کا مجموعہ لگتا تھا۔ وہ بہت بار رو پڑتا کہ وہ سب کے جیسا کیوں نہیں ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہ کر کیوں نہیں پاتا۔۔! ماں باپ کی دی ہوئی ہمت، معاشرے میں اس کو سر اٹھا کے جینے کے سارے سبق سکھا چکی تھی۔ وقت کا پنچھی پر لگا کر اڑ گیا اور غنیم تعلیمی مدارج طے کرنے لگا۔۔! کبھی کبھی ستاروں سے بھرے آسمان کو دیکھتے وہ سوچتا تھا کہ کبھی پوری دنیا اسکو پہچانے لیکن پھر خواہش کا ہاتھ جھٹک دیتا کہ کہاں میری معذوری اور کہاں یہ تمنّا۔یوں تو بیس سالہ غنیم نے زندگی میں بہت کچھ حاصل کر لیا تھا
مگر پھر بھی دل کے ایک کونے میں اپاہج ہونے کا احساس کنڈلی مارے بیٹھا تھا جو گاہے گاہے کچوکے لگاتا رہتا تھا۔۔! خلش تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔
caudal Regression Syndrome
کا اس کی قوت گویائی سے کوئی لین دین نہیں تھا لیکن وہ پھر بھی کم گو تھا۔ اس کو لگتا تھا وہ بولے گا تو سب کی ترس کھاتی نگاہوں میں آجاۓ گا۔۔! اور کون جانتا تھا کہ غنیم بہت جلد پوری دنیا کی نظروں میں آ جاۓ گا اور وہ نظریں رشک کی، فخر کی اور خوشی کی ہوں گی۔۔!
_ مشکبار نے ہمیشہ دوسروں کی نظروں میں اپنے لیے ستائش، فخر اور رشک ہی دیکھا تھا۔ پر اسے تو پوری دنیا کی نظروں میں خود کو منوانے کا شوق تھا۔ اس نے بہت سے ارمان پورے کیے اور پھر والدین کے ازلی ارمان “شادی” کا وقت آن پہنچا۔ وہ ماں باپ کی لاڈلی جس کو ساری عمر سب ملا تھا بہت مان اور پیار سے، ماں باپ نے پہلی بار اس سے کچھ مانگا تھا تو وہ کیسے کہتی کہ ابھی تو اڑان شروع ہوئی ہے ابھی تو میں نے پورے آسمان کو دیکھا ہی نہیں۔۔! چڑیا کے دل والی مشکبار آنکھوں میں ڈھیر سپنے سجائے ایک نئے سفر کا آغاز کر رہی تھی۔۔ ننھی چڑیا کو کیا معلوم تھا کہ جو صلاحیت تمام عمر داد و تحسین کی وجہ تھی وہی روگ بنا دی جاۓ گی۔۔ اسکا بولنا، اس کا حق پر جمے رہنا، ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، دلیل سے قائل کرنا اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو مانگنا اسکا جرم ٹھہر گیا۔۔! قدغن یہ لگائی گئی کہ وہ خود کو سانچے میں ڈھال کیوں نہیں لیتی۔۔! اور وہ جو بولتی تھی تو سانسیں ساکن ہو جاتیں تھی اسکا اپنا سانس لینا تک گناہ بن گیا۔۔ ماں باپ کی لاڈلی مشکبار کو تو بس چاہے جانے کی اور مان اٹھوانے کی عادت تھی۔ بے قدری کب سہی تھی اس نے۔۔۔! وہ جس کو قوت گفتار پر ناز تھا وہ لبوں کو سینے کی مشق کرنے لگی۔۔! وہ جس کو رب کعبہ نے مکمل پیدا کیا تھا، حسن اور ذہانت کا امتزاج!!! وہ جو قومی اخباروں میں لکھتی تھی، نیشنل لیول پر بولتی تھی!! اس کے حلق سے لفظ نکلتے نہیں تھے۔۔ صرف تکلیف اور آنسو۔۔ آنسو کا گولہ حلق میں پھنس جاتا اور دل سے خون ٹپکتا تھا۔ کچھ لکھنے لگتی تو ہاتھ کانپتے تھے اور دماغ میں درد کا تلاطم برپا ہو جاتا تھا!! اس پر زندگی کو اس قدر تنگ کر دیا گیا تھا کہ وہ خود کو “اپاہج” سمجھنے لگی تھی ۔۔۔! _
سر میں کیسے کر سکتا ہوں یہ تلاوت؟ کیوں نہیں کر سکتے تم غنیم؟ غنیم کی نظریں نیچے اپنے اپاہج جسم کی طرف جھک گئی۔۔ سنو غنیم!! اللّه پاک نے ہر انسان کو مکمل پیدا کیا ہے اور کسی انسان کو کسی کی تذلیل کا حق نہیں ہے۔ انسان کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بڑھ کر ہے۔۔!
پوری دنیا کی سکرین پر غنیم کی آواز گونج رہی تھی۔۔ فٹ بال ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب سے زیادہ غنیم لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا۔۔!
**__
آئیں مل کر سوچتے ہیں کہ پاکستان آخر کیوں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ میں آخری درجوں پر ہے؟ ہماری آبادی کا 65% خواتین ہیں جن کا بولنا ہنسنا کھیلنا تک انکا جرم سمجھا جاتا ہے اور اسپیشل لوگوں کا تو خدا ہی حافظ ہے۔۔! ہمارے معاشرے میں غنیم
پیدا تو ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کو جینے کا حق نہیں ملتا انکی شخصیت کی انفرادیت انکی ماؤں کی غلطی سمجھی جاتی ہے یا یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اللّه نے عذاب دیا ہے تمھیں! ہمارے ہاں مشکبار سا قابل فرد بھی شخصی انا، حسد، تکبر، گھریلو سیاست اور ظلم کا شکار ہو جاتا ہے۔۔! آخر کب ہم انسانوں کو جینے کا حق دیں گے؟ آخر کب ہم کعبہ کی حرمت سی عزت ہر انسان کی کریں گے؟
خدارا۔۔۔!!! آپ کے ارد گرد جو بھی غنیم المفتاح ہے اس کو ترقی کا ہر موقع دیں بہت عزت اور مان کے ساتھ۔۔! اس کو معذور /اپاہج نہ سمجھیں۔۔! اور جو بھی مشکبار آپ کے آنگن میں اتری ہے اسکو انسان ہونے کا مارجن دیں اسکی پسند نا پسند کا خیال نہ کریں لیکن اس کو جینے کا حق ضرور دیں کہ وہ اتنی مضبوط و با اختیار ضرور ہو جاۓ کہ کہ اپنی اولاد کو ایک صحت مند اور قابل انسان بنا سکے!! ایک خوش حال ماں ہی ایک خوش حال اور قابل معاشرہ دے سکتی ہے! سوچئے گا ضرور۔۔۔!