
پیراپلیجک سنٹر سے ری ہائبیلیٹیٹ ہونے والے رضا کار(پولیو متاثرہ) نوجوان کی عملی زندگی کی لازوال داستان۔
تحریر : مشتاق مہمند

معذور افراد کی خدا داد صلاحیتوں کو آج تک حکمرانان پاکستان ہمیشہ نظر انداز کرتے آرہے ہیں۔
آج میں جس جسمانی طور پر معذور نوجوان کی کامیاب اور پر وقار زندگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، اس نوجوان نے بہت کم عمر میں بڑی استقامت کے ساتھ جسمانی معذوری کا نہ صرف مقابلہ کیا، بلکہ اس نوجوان نے نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کے علاؤہ کھیلوں کے میدان میں بھی ہر قسم کے مقابلوں میں حصہ لیا، اس نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کافی ایوارڈز اپنے اور اپنے ملک نام کر دیئے، اور اس معذور نوجوان نے بہت سے انعامات جیت کر ملک و قوم کا نام نہ صرف روشن کیا، بلکہ اس نے دنیا بھر کے معذور افراد کا سر بھی فخر سے بلند کیا، اس معذور نوجوان کا نام ذبیح اللہ ھے، جس کا تعلق خیبر پختون خواہ کے ضلع پشاور کے ایک متوسّط گھرانے سے ہے، ذبیح اللہ کے مطابق ان کے والد سلائی مشینوں کے مرمت کا کام کرتا ھے، لیکن اس عظیم باپ نے اپنے پولیو سے متاثرہ بیٹے کی پڑھائی لکھائی پر خصوصی توجہ دیکر اپنی فرائض منصبی کو بطریق احسن انجام دیا، ذبیح اللہ کی عمر تقریباً تیئس سال ہے، نوجوان ذبیح اللہ بچپن میں ہی پولیو کا شکار ہو گیا تھا۔

ذبیح اللہ کا کہنا ھے کہ ابتدائی تعلیم اپنے گھر سے کچھ دور واقع ایک پرائیویٹ اسکول سے حاصل کی اس کے بعد اسپیشل ایجوکیشن پشاور سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی، اسکے بعد اس نے ایف اے کا امتحان پاس کیا،
میٹرک کے بعد ذبیح اللہ نے باوجود جسمانی معذوری کیپیراپلیجک سنٹر کو رضا کارانہ طور پر جوائن کیا،جو پاکستان بھر میں واحد ادارہ ھے جومعذور افراد کی جسمانی،اور نفسیاتی بحالی پر کا م کرتی ھے، یہ ادارہ ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جانے والے مریضوں کو یہاں پر داخل کرواتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ ” پولیو سے متاثرہ اور ٹیڑھے پاؤں کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کا علاج بھی مکمل طور پر مفت کرتے ہیں، ذبیح اللہ یہاں پر ان تمام مریضوں کے لئے وہیل چئیر کی پیمائش میں پیراپلیجک سنٹر کے سینئرز سٹاف کے ساتھ شانہ بشانہ بحیثیت ایک رضا کار کہ اپنی خدمات سرانجام بھر پور طریقے سے ادا کررہیں ہیں۔۔۔۔ساتھ ہی ساتھ یہ مستقل مزاج نوجوان اس وقت پشاور یونیورسٹی سے نفسیات کے شعبے سے وابستہ ڈیپارٹمنٹ میں دوسرے سال کا طالب علم ھے، اور مستقبل میں وہ ماہر نفسیات بننا چاہتا ھے۔ جب میں نے ان سے پوچھا، کہ وہ ماہر نفسیات کیوں بننا چاہتے ہیں، آجکل تو کافی سارے شعبے ہیں؟ تو جواب میں انہوں نے مجھے لاجواب کردیا، انہوں نیکہا کہ میں ماہر نفسیات اس لئے بننا چاہتا ہوں، کہ عام لوگوں کی نسبت معذور افراد بہت زیادہ ذہنی پریشانیوں اور تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے معاشرے کی معذور افراد کے لئے عدم توجہی، اور ہر دور کے حکومتی مراعات سے محرومی اور دیگر مشکلات کا ذکر کیا اور کہا کہ اس لئے میں نے مستقبل میں ماہر نفسیات بننے کا عہد کیا، کہ معذور افراد کی نفسیاتی بحالی پہ زیادہ سے زیادہ کام کر سکوں، میں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ آگے بڑھنے کی کوشش کی، لیکن ہمیشہ بدقسمتی سے معذور افراد کو پہلے اپنے ہی گھر سے احساس محرومی، اور پھر پورا معاشرہ ہمیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا، چاہے وہ تعلیمی میدان ہو، یا کھیلوں کا، ہم جیسے لوگ ہر جگہ بری طرح نظر انداز ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے معذور افراد میں احساسِ کمتری میں تیزی سیپیدا ہونا شروع ہو جاتی ھے، لہذا میں مستقبل میں معذوروں کی نفسیاتی بحالی کا پختہ عزم کر چکا ہوں، کیونکہ جب تک معذور افراد کی ذہنی بحالی بحال نہیں ہوگی تب تک وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔

سپورٹس کے حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ اس نے آج تک کھیل کے میدان میں جتنے کار ہائے نمائے انجام دیئے، ان میں وہیل چیئر حبیب بینک چورنگی ریسر کے طور پر نیشنل پیرا ایتھلیٹ کا اعزاز حاصل کیا۔
ایک سو میٹر وہیل چیئر ریس میں چار بار نیشنل گولڈ میڈلز اور دو بار سلور میڈلز کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے ”قومی ہیرو” حبیب بینک (پی،ایس،ایل) ایوارڈ کا اعزاز بھی ذبیح اللہ نے اپنے اور قوم کے نام کردیا۔ اسکے علاوہ ”قومی امن اور ” لیڈر شپ ایوارڈز” بھی ذبیح اللہ نے حاصل کیئے۔ اور یوں سپورٹس کے میدان میں بھی اس معذور نوجوان نے ملک اور قوم کا نام روشن کیا، ذبیح اللہ نے اپنے اور معذور افراد کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر معاشرے کے مفید اور بہترین شہری بنانے کے لئے جو خواب دیکھیں ہیں ان خوابوں کی کوئی حد نہیں،
میں اور ملک بھر کیلگ بھگ تین کروڑ معذور افراد، انکے ان خوابوں کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ سے ہمہ وقت دست بہ دعا ہیں،
میں نے آج تک جتنے بھی کالم، فیچرز، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر لکھے ہیں، اور یہ کہ 2005ء سے الیکٹرانک میڈیا پر آج تک جتنے انٹرویوز دے چکا ہوں، ان تمام ذرائع ابلاغ کے پلیٹ فارم سے سب کے سب سو فیصد (٪ 100) معذور افراد کی معاشی اور معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ھے، کیوں کہ معذور افراد کے آئینی اور قانونی حیثیت اور ان کے حقوق سے انکو باخبر رکھنا نہ صرف میری نہیں، بلکہ پوری ریاست کے ہر فرد کی اخلاقی، معاشرتی اور مذہبی ذمے داری ھے۔ جب سے پاکستان کو آزادی ملی ھے، بدقسمتی سے معذور افراد کے لئے آج تک پاکستان میں کوئی ایسا پرکشش یا خاص نام تک نہیں دیا گیا، جو معذور افراد کو قابلِ قبول ہو، تاکہ وہ نام رہتی دنیا تک انکی اصل شناخت اور پہچان بن سکے، ابھی تک تو ایسے افراد پر کبھی اسپیشل پرسن، تو کبھی افراد باہم معذوری یا پھر خصوصی افراد کے لیبل چسپاں ہیں۔ میں معذور افراد کے بارے میں اس لئے ہمیشہ سے لکھتا چلا آرہا ہوں کہ انشاء اللہ بہت جلد یہ آواز سیاسی جماعتوں کے حکمرانوں، چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ اور دیگر متعلقہ اداروں کے ذمّے دار نمائندوں کے کانوں تک یہ آواز ضرور پہنچے گی، معذور افراد کو پاکستان میں درپیش مسائل کو اجاگر کرنا میری زندگی کا اصل مقصد ہے،

اور دراصل یہ مقصد اس لئے بھی ہے، کہ میں بذات خود بچپن سے ہی پولیو جیسی موذی مرض سے متاثر ہوا ہوں، اور یہی وہ وجہ ہے کہ شائد میں یا ہر معذور فرد ہی معذور افراد کے احساسات اور جذبات کو زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کوئی بھی صحت مند فرد، معذور افراد کے احساسات و جذبات کو شاید تھوڑا بہت دیکھ تو سکتے ہیں، پر محسوس کبھی نہیں کر سکتے، کیونکہ سب سے پہلے تو یہ بات انتہائی افسوناک اور تشویشناک ھے کہ اس دور جدید میں آج بھی جس گھر میں معذور بچہ پیدا ہوتا ھے، یا بعد میں کسی بھی حادثاتی طور پر معذوری کا شکار ہو جائے، تو سب سے پہلے وہ اپنے گھر کیلئے، اور معاشرے کے لئے ایک بوجھ بن جاتا ھے، کیونکہ آج کل کے ان نامساعد حالات میں پوری قوم کو درپیش معاشی اور معاشرتی مسائل نے بری طرح گھیر رکھا ھے۔ اور دوسری طرف آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح میں معذور افراد کی تعدادبھی دن بدن بڑھتی جا رہی ھے۔ جو ریاست کیلئے بڑا لمحہ فکریہ ھے، معذور افراد کو معاشرے کا مفید شہری بنانے میں ذرائع ابلاغ کے مختلف شعبوں، جن میں پرنٹ، الیکٹرانک اور خاص طور پر سوشل میڈیا نے ایک بہترین اور مثبت کردار ادا کیا ھے، اور کر رہیں ہیں، جس کے لیے ہم تمام معذور افراد تاحیات ان کیشکر گذار ہیں۔
آخر میں ایک بار پھر تمام پاکستان کے عوام الناس سمیت خصوصی طور پر حکمرانوں،اعلی عدلیہ سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ پاکستان میں موجود تمام معذور افراد کو ان کے حقوق عالمی قانون کے تحت فراہم کئے جائیں، کیونکہ یہ ہمارا اسلامی،آئینی اور جمہوری حق ھے۔

Danyaal
A great and an inspirational story