
“انسانیت رنگ’نسل’مذہب سے بالاتر”
خصوصی رپورٹ ” محمد سلیم ناصر”



دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے زندگی جیتے ہیں چاہے زمانہ امن ہو یا قدرتی آفات ہوں آزمائش کی ہر گھڑی میں فلاح انسانیت کے لیے خود کو تیار رکھتے ہیں چاہے وہ کسی بھی زبان’ رنگ’نسل’ اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں انسانی ہمدردی اور احساس کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ راستے کی مشکلات اور سرحدوں کی حد بندی اور سمندر کی وسعت ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتی وہ مصیبت میں گھری ہوئی انسانیت کی پکار پر لبیک کہتے ہیں’ دوسروں کی تکلیف کے درد کو محسوس کرتے ہوئے انکی مدد کو لازمی پہنچتے ہیں۔ میری خصوصی رپورٹ پاکستانی نژاد بحرین سے تعلق رکھنے والی عربی لڑکی عبیر وارث علی کے متعلق ہے’ جس نے اپنی زندگی فلاح انسانیت کے لیے وقف کر دی ہے جو سیلاب متاثرین کی چیخ و پکار پر لبیک کہتے ہوئے ماہ ستمبر میں بحرین سے پاکستان پہنچی۔ عبیر وارث علی کا مختصر تعارف کرواتا چلوں۔ آپ نے یونیورسٹی آف بحرین سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں B-S کی ڈگری حاصل کی اور پاکستان میں یونیورسٹی آف سیالکوٹ میں ویلفیئر سوسائٹی میں فارنر ایمبیسیڈر کی خدمات بھی انجام دے رہی ہیں’ عبیر وارث علی نے دوران گفتگو بتایا کہ میرا پاکستان آنے کا مقصد مصیبت کی اس گھڑی میں پاکستان میں سیلاب متاثرین کی ہر ممکن امداد کرنا تھا جس کے لیے میں یونیورسٹی آف سیالکوٹ ویلفیئر سوسائٹی کی بھی بہت مشکور ہوں جن کے تعاون سے مجھے سیلاب متاثرین کی امداد کرنے کا موقعہ ملا۔

عبیر وارث علی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اشیاء ضروریہ کے 38 بڑے بیگ بذریعہ ہوائی جہاز بحرین سے پاکستان بھیجوائے گے جن میں سے ہر ایک بیگ کے سامان کا وزن 70 کلوگرام تھا جبکہ ماہ ستمبر میں 15 روزہ دورے پر بحرین سے 20 لاکھ روپے کے امدادی سامان کے ساتھ میں خود پاکستان پہنچی جس میں راشن بیگ’ خیمے’ بستر’ ڈرائی فوڈ’ مچھر دانیاں’ کپڑے’ جوتے’ اور خشک دودھ وغیرہ کے ڈبے شامل تھے اس کے علاؤہ لاکھوں روپے کی ادویات بھی عطیہ کی گئیں’ انھوں نے ضلع راجن پور میں سیلاب زدہ علاقوں کے دورہ کا احوال بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے لوگوں کو کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار اپنے بچوں اور جانوروں کیساتھ زندگی گزارنے پر مجبور دیکھا جن کی نظریں بار بار آسمان کی جانب اٹھتیں تھیں جیسے وہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کسی غائبانہ امداد کی منتظر ہوں’ اور کچھ ایسے علاقے بھی دیکھے جہاں بلکل بھی امداد نہیں پہنچی تھی جسکی وجہ وہاں شدید سیلابی صورتحال تھی اور حکومت پاکستان کی جانب سے ریسکیو ٹیمیں ہر ممکن کوشش میں تھیں کہ ان علاقوں میں جتنی جلد ممکن ہو سکے امداد پہنچائی جائے۔

اور میں بہت مشکور ہوں پاکستان آرمی کی’ پاک فوج کو میں نے سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے سب سے آگے دیکھا جو موت سے لڑ کر سیلاب متاثرین کو ریسکیو کر رہے تھے’ بہت سے ایسے علاقے تھے جہاں صرف پاکستانی فوج ہی پہنچ پائی اور موت کے منہ سے لوگوں کو ریسکیو کیا۔ زندگی بہت مختصر سی ہے مگر جتنا ممکن ہو سکے خود کو ہر لمحہ انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے تیار رکھیں۔