اک وقت کی روٹی کے لئے کتنا مجبور ھے باپ
کالم نگار و اینکر پرسن اورنگزیب بھٹی

آج رونا روئیں تو کس بات کا روئیں سبھی اپنے ھیں میں بات کر رہا ھوں 14اگست 1947ء کے پہلے فرنگی دور کی جس میں آزادی کی ایک بہت بڑی تحریک چلی اور ایک الگ سلطنت کی ایک الگ قوم کی ایک قوم کا لیڈر تھا نہرو اور ایک قوم کا لیڈر تھا محمد علی جناح پاکستان جس میں پاک سر زمین پاک لوگ شامل تھے اور پاکستان بنا اور ایک سلطنت بنی ھندوستان دونوں ممالک کے نام پر غور کریں تو آپ معنی اور مہفوم سمجھ جائیں گے اس ملک کو حاصل کرنے کے لئے کتنی قربانیاں دیں کتنے بیٹوں کے لاشے کٹے کتنی ماؤں بہنوں بیٹیوں و بیویوں کا قتل عام ھوا کتنا چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال ھوا یہ ایک الگ داستان ھے.
14اگست 1947ء کو آزادی حاصل کی اور ھم بھول گئے کہ یہ ملک حاصل کرنے کی خوشی میں ھم نے کیا کھویا وہ دکھ و درد بھول گئے کہ چلو اب کسی کی ماں بہن بیٹی و بیوی کی عزت تار تار نہیں ھوگی ھم اپنے مذہبی فرائض احسن طریقے سے انجام دیں گے اپنی عبادتیں مسجدوں میں ادا کریں گے مذہبی آزادی ھوگی سرزمین پاکستان میں جان و مال کا تحفظ ھو گا.
مگر آج 75سال گزر گئے ھیں ھر آنیوالی حکومت پر اعتبار کرتے ھیں چلو اب کوئی اچھا راہنما آئے گا مگر نہیں آیا جو صحیح معنوں میں عوام کا سچا ھمدرد ھو آج وہ سلطنت جو کلمہ طیبہ کے نام پر جس سلطنت کی بنیاد رکھی گی تھی اپنا وجود کھو چکی ھے ھمارا آج بھی ذہین فرنگی نظام کا غلام ھے جس میں سب سے بڑا قصور حکمران طبقہ کا ھے جو آئے روز IMF سے قرضہ لیتے ھیں کہ ھم نے کامیابی حاصل کر لی اگر قرضہ لے کر ہی ملک چلانا ھے تو اپنے ملکی وسائل کدھر ھیں اور جو یہ قرضہ لیا جاتا ھے وہ کدھر جاتا ھے کسی غریب عوام کو ریلیف ملا نہیں.
ھاں عوام کو ملتا ھے 22کروڑ عوام کا بچہ بچہ IMF کا قرض دار ھے اور ٹیکس کی مد میں وصول کیا جاتا ھے وہ قرضہ جو عوام.نے لیا ہی نہیں مگر واپسی عوام سے ہی کی جاتی ھے واہ رے قسمت پاکستان میں مسلمان ھونے کی بہت بڑی سزا دی جا رہی ھے
کبھی چینی کا بم کبھی پٹرول کا بم کبھی پیاز کا بم کبھی آٹے کا بحران ھے ھر روز اس عوام پر نئے نئے اشیائے خورد و نوش مہنگائی کا بم گرتا ھے مگر یہ پاکستانی عوام بڑی سخت جان ھے نہیں مرتے صبح کا سورج طلوع ھوتا ھے پھر یہ لائن میں لگ جاتے ھیں کیونکہ اس باپ کو فکر ھے بچے بھوکے ھیں بچوں کی سکول کی فیس بچوں کی وین کا کرایہ بچوں کی کاپیاں بچوں کی ٹیوشن فیس بچوں کے یونیفارم بچوں کی ادویات بچوں کی فرمائشیں مگر اب وہ نہیں کرتے کیونکہ باپ مجبور ھے کرنانے والا چاچو اب ادھار چاکلیٹ و پاپڑ نہیں دیتا ڈاکٹر بھی اب کہتا ھے دوائیاں بہت مہنگی ھو گی ھے اب ادھار کی گنجائش نہیں اور سبزی والا بابا کہتا ھے اب سبزی نہیں ملے گی آپ کا پہلے ہی ادھار کافی ھوگیا ھے بچے اب کسی چیز کی ضد بھی نہیں کرتے کیونکہ ان کا باپ قرضدار ھے جب شام. کو بابا خالی ھاتھ گھر آتے ھیں تو کہتے ھیں کہ آج دھاڑی نہیں ملی اور آٹا بھی نہیں ملا تو کلیجہ خون کے آنسو روتا ھے اور بچے کہتے ھیں پاپا ھمیں آج بھوک نہیں ھے اور جب ملک کے حکمران کہتے ھیں کہ خزانہ خالی ھے تو باپ مجبور ھو جاتا ھے اور جس گھر میں باپ نہیں اس گھر کی عزتیں بھی نیلام ھوتی ھونگی اک وقت کی روٹی کے لئے کتنا مجبور ھے باپ…………
کتنا مجبور ھے ابن آدم و بنت حوا!!!
خدایا کچھ رحم کرو حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں میں مصروف ھے خدایا اب بس بھی کرو اتنا عوام پر بوجھ نہ ڈالو یہ قرضے لیکر عوام کا خون نہ نچھوڑو جن لوگوں نے ذخیرہ اندوزی کی ھے چاھے وہ پیاز کی ھو یاں آٹے کا بحران پیدا کیا ھو ان کو قرار واقعی سزا دی جائے کیونکہ ملک میں وافر مقدار میں ھر چیز موجود ھے یہ مصنوعی بحران پیدا کیا گیا ھے اس پر قابو پانا حکومت کا کام ھے 75سالہ دور حکومت میں دیکھ لیں ایسا ھوشربا مہنگائی کا طوفان دیکھنے کو نہیں ملتا اگر موجود حکومت اس مہنگائی پر کنٹرول نہیں کرسکتی تو ھندوستان اور پاکستان کے لفظ پر غور کر لیں فرق آپ کو خود نظر آ جائے گا
جب ھمیں پاکستان کے معنی اور مفہوم کا سمجھ آگیا قائد اعظم محمد علی جناح کا آہین لاگو ھو جائے تو نہ کسی کا باپ مرنے گا نہ کسی کی ماں بہن بیٹی و بیوی یوں رسوا ھو گی اور نہ کوئی یوں آٹے والی لائن میں کھڑا ھو گا اور نہ یوں عدالتوں میں انصاف کے. لیے در در بھٹکے گا تبدیلی ھمیں خود اپنے اندر پیدا کرنی ھو گی