
انٹرویو: محمد سلیم ناصر: مہمان شخصیت؛ ڈاکٹر اذکاء انصر۔
:بیورو چیف ماہنامہ پاکستان سپیشل


ارشادِ باری تعالیٰ ہے” کہ جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی” اس وقت تقریبآ ساری دنیا کورونا کی لپیٹ میں آ کر زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے ہر ملک کی حکومت دوسرے ہمسایہ ممالک کو چھوڑ کر پہلے اپنے ملک میں عوام کی زندگیوں کو محفوظ کرنے میں مختلف احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کروانے میں لگی ہوئی ہے تمام ممالک کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ کورونا کی بیماری نے ہر ایک شخص کو اپنی جگہ پر لاک کر کے رکھ دیا ہے ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے اور پوری دنیا کی معیشت کو فل سٹاپ لگا دیا ہے مطلب جو جہاں ہے وہیں رک جائے والی کیفیت پیدا کر رکھی ہے اس قدر خطرناک صورتحال میں بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں کورونا کی وجہ سے زندگی اور موت کی اس جنگ میں سب سے پہلے نمبر پر پیرا میڈیکل اسٹاف ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کی اس جنگ میں ہمارے پیرا میڈیکل اسٹاف نے ہر اول دستے کی خدمات سر انجام دیں ہیں اور اپنی جانوں کی پرواہ کیے بیغر رات دن اپنے ہم وطنوں کی زندگی کی بقاء کے لیے کورونا سے تاحال برسرِ پیکار ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ جب مصیبت آتی ہے تو اپنے ساتھ پریشانیوں کا نہ ختم ہونے والا ایک طویل سلسلہ بھی ہمراہ لیکر آتی ہے ایک عام انسان کو کورونا کی ٹریٹمنٹ کرنا آسان ہوتا ہے اس کی نسبت ایک معزور افراد کی ٹریٹمنٹ میں کافی زیادہ محنت اور توجہ کی اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے اس پر خصوصی گفتگو کرنے کیلیے انٹرنیشنل پاکستان سپیشل میگزین میں مہمان شخصیت ڈاکٹر اذکاء انصر میرے ساتھ موجود ہیں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ آپ شیخ خلیفہ ہیلتھ سکول میں قائم کورونا ویکسینیشن سنٹر کی انچارج ہیں جنہوں نے اپنے بہت ہی قیمتی وقت میں سے مصروفیت کے باوجود گفتگو کے لیے تھوڑا وقت دیا بہت سے معزور افراد کے لیے ویکسینیشن کے عمل اور سہولیات کی فراہمی کے بارے معلومات فراہم کرنا بھی اولین ترجیحات میں شامل ہے جس کے لیے میں ان کا بہت مشکور ہوں۔
س:- اسلام علیکم ڈاکٹر اذکاء انصر سب سے پہلے آپ اپنے بچپن سے لیکر پریکٹیکل زندگی کے بارے مختصراً ہمارے قارئین کو بتائیں؟
ج:- وعلیکم السلام میں 11 مئی 1994ء کو پیدا ہوئی اور ابتدائی تعلیم میں نے شیخ زید سکول اینڈ کالج سے میٹرک اور پری میڈیکل میں ایف ایس سی کی اسکے بعد میں نے شیخ زید ہسپتال اینڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا اور اب میں نے میڈیکل میں ہی سپیشلائزیشن کے لیے امتحانات دئیے ہوئے ہیں’ اور مزید میڈیکل کی ہائیر سٹڈی کے لیے امریکہ سے بھی کچھ کورسسز جاری ہیں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں اور ایلیٹ کلاس کوالیفائیڈ گھرانے سے ہوں میں آج جس مقام پر ہوں والدین کی دعاؤں کی بدولت ہوں۔
س:- اب تک شیخ خلیفہ ہیلتھ سکول میں کتنے معزور افراد ویکسینیشن کروا چکے ہیں اور معزور افراد کے لیے آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں؟
ج:- کورونا ویکسینیشن کے لیے نارمل اور معزور افراد کا الگ الگ ڈیٹا نہیں ہے یہ روٹین میں ہی لگائی جا رہی ہے البتہ معزور افراد کے لیے شیخ خلیفہ ہیلتھ سکول میں تقریبآ تمام سہولیات فراہم کی گئیں ہیں جن میں وئیل چئیر اور سٹریچر کا انتظام ہے اور معزور افراد کے لیے الگ سے ویکسینیشن کاؤنٹر بھی بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے انہیں انتظار نہیں کرنا پڑتا اور کچھ ایسے معزور افراد بھی ویکسینیشن کے لیے آئے جن کو کمرے تک لانے میں دشواری تھی تو ایسے معزور افراد کو ہمارا ڈیوٹی پر موجود سٹاف گاڑی تک جاکر ویکسینیشن کرتا ہے اور تمام تصدیقی عمل کو اسی جگہ پر مکمل کیا جاتا ہے میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ معذور افراد کو ویکسینیشن کے عمل کے دوران کسی قسم کی تکلیف نہ ہو اور نہ ہی ان کو انتظار کرنا پڑے ایسے افراد کو توجہ کی زیادہ دیکھ بھال کی ضروت ہوتی ہے۔
س:- کیا کوئی ایسے معزور افراد کے کیس بھی سامنے آئے جن کی ویکسینیشن ہو چکی تھی مگر پھر بھی ان کو دوبارہ کورونا ہوا ہو۔
ج:- جی ابھی تک تو ایسا کوئی کیس ہمارے پاس رپورٹ نہیں ہوا میں سمجھتی ہوں اس میں نارمل یا معذور والی بات نہیں ہے اگر ہم میں سے ہر کوئی کورونا سے بچاؤ کی مکمل احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کریں تو کافی حد تک ہم خود بھی اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں جبکہ معذور افراد میں زیادہ تر جسمانی اور اعصابی معذوری کی وجہ سے اکثر بیماریوں سے مقابلہ کرنے کی قوت مدافعت کم ہوتی ہے اس لیے خاص طور پر سپیشل افراد کو احتیاطی تدابیر میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے اور ان کے گھر والوں کو بھی چاہیے کہ ان پر توجہ دیں۔
س:- ڈاکٹر بننا آپ کا شوق تھا یا گھر والوں کی خواہش؟
ج:- اچھا سوال ہے آپ کا ڈاکٹر بننا میرے والد صاحب کی خواہش تھی ان کا خواب تھا کہ میں ڈاکٹر بنو اور میں اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں نے اپنے والد کے خواب کو زندہ تعبیر کیا ویسے میری دلی خواہش تھی کہ میں فیشن ڈیزائن کی سٹڈی کرتی مگر اب بھی میں شکر گزار ہوں اللّٰہ تعالیٰ کی کہ میں اپنی عمر کے حساب سے ایک کامیاب زندگی گزار رہی ہوں بہت کم لوگ ہوتے دنیا میں جو اتنی عمر میں کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے مزید کامیابیوں کے سفر پر گامزن ہیں۔
س:- آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے۔ اور آپ کے عام زنگی میں کیا مشاغل ہیں؟
ج:- مجھے کھانے مچھلی اور مکس سبزیاں اور کم تیزابیت والی غزائیں زیادہ پسند ہیں اس کے علاؤہ کتابوں میں شارٹ ناول پڑھنا’ سفر کرنا’ فیشن ڈیزائنگ پسند ہے۔
س:- مستقبل میں آپ سپیشل افراد کے لیے کوئی فلاحی کام بھی کرنا چاہیں گیں؟
ج:- ایک عام انسان کی حثیت سے میں دوسرے افراد جو کسی بھی طرح کی تکلیف میں مبتلا ہیں اور بالخصوص معذور افراد کے لیے میں اپنی ذات میں بہت درد محسوس کرتی ہوں کیونکہ جس کو تکلیف ہوتی ہے اس کے درد کا اندازہ بھی اسے ہی ہوتا ہے میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے ہمارے گھر کی ملازمہ کی بچی معزور تھی اور میں زیادہ تر اسکی دیکھ بھال کرتی تھی اسکی تکلیف کو دیکھ کر مجھے خود کو بہت تکلیف محسوس ہوتی تھی کہ چھوٹی سی بچی ہے کس طرح یہ سب برداشت کر تی ہو گی دس سال تک اس بچی کو میں نے سنبھالا اس کی والدہ بھی تھی مگر زیادہ اس کو میں ہی دیکھتی تھی دس سال کی عمر میں اسکا انتقال ہوا تو وہ معذور بچی ابھی بھی میری گزری یادوں کا حصہ ہے جب سوچتی ہوں تو آنکھیں بھر آتیں ہیں اب بھی۔
س:- آپ ایسے والدین کو کیا پیغام دینا چاہیں گیں جن کے گھر کوئی معذور افراد ہے؟
ج:- میں بس یہی کہنا چاہوں گی کہ سپیشل بچوں کو نہ تو کسی ڈاکٹر کی توجہ سکون دے سکتی ہے نہ ہی کوئی حکومتی ادارہ اگر سپیشل بچہ سکون محسوس کرتا ہے تو وہ اسکے اپنے گھر والوں کی توجہ کی بدولت ہوتا ہے ایسے بچے عموماً اپنے والد یا والدہ کے پیار کے متلاشی رہتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو زیادہ سے زیادہ پیار محبت ملے یہ بہت حساس ہوتے ہیں ویکسینیشن سنٹر پر انچارج ہونے کی حثیت سے میں نے ایسے کافی سپیشل افراد کو خود ویکسینیشن کی جن کو کمرے تک لانے کے لیے ریمپ تک لانا بھی مشکل ہوتا تھا تو ایسے میں جب میں خود انکے پاس گاڑی تک جا کر ویکسینیشن کرتی تو وہ بہت ڈرے ہوئے ہوتے مگرماں باپ کی ایک پیار بھری جھلک سے ان کا ڈر ختم ہو جاتا ہے وہ درد کو بھول جاتے ہیں یہ معصوم سے بھی معصوم ہوتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر کی حثیت سے اکثر سپیشل افراد کے علاج میں کافی مشکلات بھی ہوتیں ہیں مگر کبھی بھی ہمدردی کو پس پشت نہیں رکھا۔
