
افتخار احمد: شہرہ آفاق “بولتے ہاتھ ” کے خالق کی بیٹی مہرین افتخار سے خصوصی انٹرویو
انٹرویو ” محمد سلیم ناصر
:بیورو چیف ماہنامہ پاکستان سپیشل



اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں فرمایا کہ”ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے” یعنی دنیا میں ہر ایک چیز چاہے جاندار ہو یا بے جان وہ فنا کی طرف گامزن ہے جیسے لوہے کو زنگ کھا جاتا ہے اور دھیرے دھیرے اس کے وجود کو ختم کر دیتا ہے اور لکڑی کو آگ ختم کر دیتی ہے اور پل بھر میں تناور درخت کے تنوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتی ہے یا دیمک لگ جائے تو وہ بھی ایک دن لکڑی کے وجود کو ڈھیر کر دیتی ہے اسی طرح انسان کا بھی ایک وقت مقرر ہے جب وقت آ پہنچے تو انسان موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ مگر اللّٰہ تعالیٰ کی بنی نوع انسانوں میں سے اپنے برگزیدہ بندوں پر خاص کرم نوازی ہے’ کہ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی اللّٰہ تعالیٰ انکے کردار کو تاریخ کی آغوش میں زندہ رکھتا ہے’ اور دنیا میں اگر کوئی چیز فانی نہیں تو وہ صرف اور صرف استاد کا “علم” ہے۔ جو وہ انگلی نسل میں منتقل کرتا ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے ‘کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے’ ایک استاد بظاہر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے مگر اس کا علم رہتی دنیا تک روز روشن کی طرح زندہ جاوید رہتا ہے۔ ملکی تاریخ میں ایک ایسا ہی نام سید افتخار احمد کا بھی ہے’ جو نہ صرف والدین کے لیے ایک ہونہار بیٹا تھا بلکہ ایک احساس کرنے والا بھائی’ ایک وفا شعار خاوند’ شفیق والد اور اپنے سینکڑوں شاگردوں کے لیے ایک بہت ہی قابل معلم بھی تھا۔ سید افتخار احمد کی شخصیت کے بارے تفصیلاً گفتگو کرنے کے لیے میرے ساتھ موجود ہیں انکی بیٹی مہرین افتخار جو کہ کراچی میں Deaf Reach اسکول میں ریجنل ٹریننگ منیجر اشاروں کی زبان کی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ اور مختلف ٹی وی چینلز پر ڈیف کمیونٹی کی راہنمائی کے لیے مختلف پروگرامز بھی کرتی ہیں۔
پاکستان سپیشل:- اسلام علیکم مہرین افتخار کیسی ہیں آپ؟
مہرین افتخار:- وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ الحمد اللہ میں ٹھیک ہوں۔
پاکستان سپیشل:- آپ کے والد محترم کی وفات کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ اب آپ زندگی کو کیسا دیکھتی ہیں یا محسوس کرتیں ہیں؟
مہرین:- جی سلیم ناصر آپ نے اچھا سوال کیا ہے اگر میں احساسات کی زبان میں بیان کروں تو صرف اتنا ہی کہوں گی کہ میرے والد محترم میری کل کائنات تھے جب تک وہ حیات تھے تو میرے لیے کوئی غم’ غم نہیں تھا میرے لیے وہ میری جنت تھے میں جتنی بھی پریشان ہوتی مگر جب والد محترم کی آغوش میں جاتی تو ہر پریشانی ختم ہو جاتی ان کے سائے میں جو زندگی کا اطمینان اور سکون تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے اب مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میں دنیا کی تاریک راہوں میں بالکل تنہا رہ گی ہوں پھر اچانک ان تاریک راہوں کو میرے والد محترم کی یادیں سورج کی کرنیں بن کر روشن کر دیتی ہیں اور انکی باتوں کو یاد کر کہ دنیا سے مقابلے کی ہمت پیدا ہوتی ہے- دنیا میں والدین اور اولاد کے رشتے سے بڑھ کر کوئی رشتہ نہیں ہے میرے والد محترم نے زندگی کے ہر پہلو کے بارے جو کچھ بھی ہمیں بتایا سمجھایا تب وہ سب محض باتیں لگتیں تھیں اور آج جب وہ نہیں رہے تو انکی باتوں کا مطلب نہ صرف سمجھ آ گیا بلکہ اکثر موقعوں پر اولاد کو نظر بھی آتا ہے رشتے دار دوست احباب صرف حوصلہ ہی دے سکتے ہیں مگر بچھڑنے کا دکھ درد غم صرف اور صرف حقیقی اولاد کو ہوتا ہے.
پاکستان سپیشل:- مہرین ہمارے قارئین کو اپنے والد مرحوم سید افتخار احمد کا پیدائش سے لیکر تعلیم مکمل کرنے اور وفات کا مختصر احوال بتائیں؟
مہرین:- جی ضرور میرے والد صاحب سید افتخار احمد 26 فروری 1940ء کو پیدا ہوئے۔ جو پیدائشی طور پر بولنے اور سننے کی نعمتوں سے محروم تھے۔ میری دادی بہت پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ جنہوں نے 1948ء میں ڈیف اسکول کی بنیاد رکھی تو والد مرحوم سید افتخار احمد نے بھی دیگر بچوں کے ساتھ ابتدائی تعلیم اپنی والدہ محترمہ کے اسکول سے مکمل کی۔ اور پھر NCA لاہور سے آرٹ میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ 1985ء میں پاکستان ٹیلی ویژن پر”بولتے ہاتھ” کے نام سے ڈیف کمیونٹی کے لیے پروگرام شروع کیا۔ جو 15 سال تک چلا۔ اور 1986ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کی جانب سے سید افتخار احمد کو سپیشل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ والد صاحب نے اشاروں کی زبان کو سمجھانے کے لیے متعدد کتابیں بھی لکھیں۔ انہوں نے عالمی سطح پر بھی پاکستان کی طرف سے ڈیف کمیونٹی کی نمائندگی کی۔ ورلڈ فیڈریشن آف ڈیف میں وہ پاکستان کے پہلے ممبر تھے۔ اور وہ DPIP ڈس ایبل پیپلز انٹرنیشنل پاکستان کے پہلے چیئرمین بھی رہے۔ وہ 29 مارچ 2022ء کو حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے 82 سال 1 ماہ اور 3 یوم کی عمر میں انتقال کرگئے۔
پاکستان سپیشل:- انہوں نے ڈیف کمیونٹی کے لیے کیا کیا اقدامات کیے؟
مہرین:- اگر میں کہوں کہ میرے والد نے اپنی تمام زندگی ڈیف کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دی تھی تو یہ غلط نہ ہوگا۔ مگر انکی اس سوچ کے پیچھے صرف ایک شخصیت ہے اور وہ ہے انکی شریکِ حیات یعنی میری والدہ ریحانہ افتخار جو آخری وقت تک سائے کی طرح والد صاحب کے ساتھ رہیں۔ ہم چار بہنیں ہیں ہم نے اپنی اب تک کی زندگی میں آخری وقت تک کبھی والد والدہ کو الگ نہیں دیکھا۔ جب والد صاحب کی شادی ہوئی تو میری والدہ ریحانہ افتخار نے ان سے کہا کہ آپ کو ٹیلی ویژن پر ڈیف کمیونٹی کے لیے کام کرنا چاہیے جس کے بعد 1985ء میں پاکستان ٹیلی ویژن پر والد صاحب نے بولتے ہاتھ کے نام سے ڈیف کمیونٹی کے لیے پروگرام شروع کیا کیونکہ والد صاحب نے والدہ صاحبہ کو اشاروں کی زبان پر مکمل عبور حاصل کروا دیا تھا اور اس پروگرام میں والدہ صاحبہ بھی انکے ہمراہ ہوتی تھیں اس کے علاؤہ انہوں نے انٹرٹینمنٹ کے پروگرام تعلیمی اور فنی پروگرامز بھی کیے اور ٹیلی ویژن کے ذریعے سے انہوں نے معاشرے کے دیگر ڈیف افراد کی راہنمائی کی اور انھیں باور کروایا کہ اپنی اس معذوری کو مجبوری نہ بنائیں بلکہ اپنے اندر خود اعتمادی اور ہمت پیدا کریں اور تعلیم حاصل کر کے اس معذوری کو شکست دیں۔ یہاں میں یہ بھی بتاتی جاؤں کہ میرے والد بہت اچھے میوزیشن بھی تھے اور انہوں نے اپنی زندگی میں مختلف شعبوں میں اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ملک و قوم کے لیے اپنی خدمات بھی سر انجام دیں۔
پاکستان سپیشل:- آپ نے اپنے والد صاحب کو کیسا پایا؟
مہرین:- میرے والد صاحب میرے لیے رول ماڈل تھے بلکہ وہ پوری دنیا میں بہت سے لوگوں کے رول ماڈل تھے انتہائی نرم اور شفیق طبیعت کے انسان تھے ہم بہنیں اکثر اپنی والدہ صاحبہ سے ڈرتی تھیں اور والد صاحب سے ہر بات کر لیتیں تھیں وہ بہت پیار کرتے تھے انہوں نے زندگی میں کسی بھی مقام پر اپنی مرضی ہم پر مسلط نہیں کی تھی۔ انہوں نے ہماری بہت اچھی تعلیم و تربیت کی اور ہم آج جس مقام پر ہیں وہ سب انہی کی تربیت کی بدولت ہیں۔ معاشرے میں جو عزت ہے اس کا سہرا میرے والد محترم کے سر ہے وہ کہیں بھی جاتے تو ہم ساتھ جاتیں اور انکی اشاروں کی زبان کی ترجمانی کرتیں اور ڈیف کمیونٹی کو درپیش مسائل کو وہ ہر پلیٹ فارم پر اجاگر کرتے اور ان مسائل کے حل کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتے تو ان حالات میں ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ میرے والد حق سچ پر ڈٹ جانے والے سچے مسلمان اور محب وطن پاکستانی تھے اور میں اللّٰہ تعالیٰ کی بہت شکر گزار ہوں کہ میں انکی بیٹی ہوں۔ انہوں نے ہمیشہ دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر دوسروں کی مدد کی وہ بہت حلیم طبیعت کے انسان تھے۔
پاکستان سپیشل:- کوئی ایسی خواہش جو آخری وقت تک انکے دل میں ہو جسے وہ پورا ہوتا دیکھنا چاہتے تھے؟
مہرین:- جی زندگی میں انہوں نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں اور بہت زیادہ فلاح انسانیت اور ڈیف کمیونٹی کیلئے کام بھی کیا مگر اب انکی خواہش تھی کہ حکومتی سطح پر اشاروں کی زبان کو باقاعدہ پرموڈ کیا جائے ٹی وی چینلز پر خبریں اور تاریخی دستاویزی پروگرام تو شروع کیے گے ہیں مگر اس کے علاؤہ تعلیمی اداروں میں اشاروں کی زبان کی نارمل بچوں کو بھی تعلیم دی جائے کہ زندگی میں کسی بھی مقام پر ڈیف افراد سے بات کرنی پڑے تو پریشانی نہ ہو اور ایک دوسرے کو اچھے طریقے سے بات سمجھا سکیں مطلب کہ رابطے کا جو فرق ہے وہ ختم ہو جائے اور مختلف دفاتروں میں بھی اشاروں کی زبان کے باقاعدہ مترجم ہوں جہاں پر ڈیف افراد کو کسی بھی کام کے دوران پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
پاکستان سپیشل:– بہت شکریہ مہرین افتخار آپ نے اپنے قیمتی وقت سے تھوڑا وقت گفتگو کے لیے نکالا اور اپنے عظیم والد محترم کی یادیں مختصر سے احوال کیساتھ ہم سے شئیر کیں بلاشبہ سید افتخار احمد کی خدمات کو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ سید افتخار احمد نے ڈیف کمیونٹی اور دیگر خصوصی افراد کے حقوق کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کر دی اگر آج خصوصی افراد کے حقوق کے لیے لوگ باہر نکلتے ہیں انکی آواز بنتے ہیں تو یہ سب سید افتخار احمد کی خدمات کا نتیجہ ہے جنہوں نے اپنی معذوری کو قسمت کا لکھا سمجھ کر مجبوری نہیں بنایا بلکہ دنیا میں اپنے جیسے لاکھوں کروڑوں افراد کو اپنی تعلیمی خدمات سے یہ باور کروایا کہ خصوصی افراد بھی معاشرے کا اہم حصہ ہیں اور ان پر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو یہ بھی دنیا میں ایک عام نارمل انسان سے بڑھ کر ملک و قوم کا نام روشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اور میرے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ میں نے ایک عظیم انسان کی زندگی کے بارے انکی عظیم بیٹی سے انٹرویو کیا جو کہ کسی اعزاز سے کم نہ ہے’ میں اپنے قارئین سے یہی کہوں گا کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے بے لوث ہو کر اپنا کردار ادا کریں مطلب کہ جو ہمارا کام ہے وہ ہم خلوصِ دل سے کریں اس کا صلہ دینا اللّٰہ تعالیٰ کا کام ہے وہ اس پاک ذات پر چھوڑ دیں کیونکہ اس پاک ذات سے بہتر صلہ دینے والا کوئی نہیں ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ سید افتخار احمد کی روح کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔ آمین

