
انٹرویور” محمد سلیم ناصر
بیورو چیف ماہنامہ پاکستان سپیشل میگزین رحیم یارخان



فلموں اور ڈراموں میں اکثر ” ہم کسی سے کم نہیں” کا ڈائیلاگ سنتے ہیں تو اس ڈائیلاگ کی گہرائی میں کبھی جانے کی کوشش نہیں کرتے بس ایک فلمی کہانی یا ڈرامائی کہانی سمجھ کر نظر انداز کر جاتے ہیں مگر حقیقی زندگی میں اس ڈائیلاگ کی ایسے تمام مرد و خواتین کے لیے بہت اہمیت ہے جو محنت مستقل مزاجی سے اپنے راستے خود بناتے ہیں ایسے ہی باہمت افراد کے لیے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
“خود سنوارے ہیں ہم نے اپنی منازل کے راستے
ہم وہ نہیں جن کو زمانہ بنا گیا”
جس طرح سے مرد و عورت کے لیے علم حاصل کرنے میں کوئی تفریق نہیں بلکل اسی طرح سے ترقی میں بھی مرد و عورت میں کوئی تفریق نہیں’ ہمارے ملک کی خواتین بھی کسی سے کم نہیں اور مختلف شعبوں میں وقت کیساتھ ساتھ خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں پیچھے نہیں ہیں’ پاکستان سپیشل میگزین میں ایسی ہی ایک باہمت خاتون جنہوں نے Biaa’s Interior Designing کے نام سے اپنی کمپنی کی بنیاد رکھی اور سالوں کی محنت و لگن سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور بہت کم عرصہ میں پاکستان کی پہلی سگنیچر لائن انٹرئیر ڈائزائنر کا بیسٹ ایکسی لینس ایوارڈ اپنے نام کیا’ اس باہمت خاتون کا نام ہے رابعہ راحیل جو اس وقت میرے ساتھ موجود ہیں جن کی کامیابیوں کو انکی زبانی ہی اپنے قارئین کی نظر کرتا ہوں۔
پاکستان اسپیشل:- اسلام علیکم رابعہ راحیل کیسی ہیں آپ؟
رابعہ راحیل:- وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ’ الحمداللہ’ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہے ٹھیک ہوں۔
پاکستان اسپیشل:- رابعہ آپ نے ابتدائی تعلیم سے ماسٹر تک کن کن تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی مختصر بتائیں؟
رابعہ راحیل:- جی ضرور کیوں نہیں! میری تاریخ پیدائش 31 مارچ 1976ء کی ہے’ میٹرک تک میں نے آرمی پبلک اسکول راولپنڈی سے تعلیم حاصل کی۔ پھر فائن آرٹس کی ڈگری RCG کالج راولپنڈی سے حاصل کی۔ اسکے بعد میں نے UK اور America کے نامور تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی۔ اور پھر دوبئی کے Chelsea College of Arts سے Interior Designer کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ اور UK سے ہی میں نے 5 انٹرنیشنل سائن لینگویجز کی تعلیم حاصل کی۔ اور میں نے UK سے آئیڈیالوجی کورس بھی مکمل کیا۔
پاکستان اسپیشل:- آپ نے بہت کچھ زندگی میں دیکھا سیکھا اور بہت اچھے تعلیمی اداروں سے اچھی تعلیم حاصل کی مگر انٹرئیر ڈائزائنگ میں آنے کی کوئی خاص وجہ؟
رابعہ راحیل:- سلیم ناصر بہت اچھا سوال ہے آپ کا جواب دینے سے قبل میں تھوڑا سا اپنے والدین کے بارے ذکر کانا چاہوں گی۔ میرے والد مرحوم سید افتخار احمد اور میری والدہ ریحانہ افتخار پی ٹی وی پر ” بولتے ہاتھ ” کے نام سے ڈیف کمیونٹی کے لیے پروگرام کرتے تھے اور میں نے بچپن سے اپنے والد کے ساتھ تقریباً 13 سال کی عمر سے نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ عالمی سطح پر بھی عملی طور پر ڈیف کمیونٹی کے لیے کام شروع کیا۔ اور نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ بہت سے ممالک کا بھی سفر کیا اور اشاروں کی زبان کی مترجم ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ جو تاحال جاری ہے۔ اور میرے والد مرحوم آخری وقت تک ڈیف کمیونٹی اور دیگر خصوصی افراد کو درپیش مسائل کے لیے کوشاں رہے’ اور مجھے سید افتخار احمد کی بیٹی ہونے پر فخر ہے۔ اور اب سوال کے جواب کیطرف آتی ہوں مجھے بچپن سے ہی کچھ الگ کرنے کا شوق رہتا تھا میں اپنی دوسری بہنوں کی نسبت سب سے الگ ہی کچھ نہ کچھ کرتی اور جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہمیں گھر میں والدین کی طرف سے بھی نئی نئی چیزیں سیکھنے کو ملیں کیونکہ میرے میرے والد مرحوم ایک بہت اچھے آرٹسٹ بھی تھے اور اکثر ایسے ہوتا کہ جب ہم اسکول جاتے تو ہمارے کمرے کے سامان کی ترتیب اور ہوتی تھی مگر جب واپس گھر آتے تو کمرے کا ڈائزین تبدیل ہوا ہوتا تھا۔ کیونکہ میری والدہ ریحانہ افتخار کو گھر میں چیزوں کی تربیت تبدیل کر کے نئے نئے ڈائزئن بنانے پر عبور حاصل تھا تو اس لیے اکثر ہمارے کمرے کا ڈائزئن تبدیل ہوتا تھا بس اسی طرح روزانہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کو ملتا مگر مجھے ابو جو چیز بھی بتاتے کہ اس کو ایسے نہیں ایسے کرو تو میں انکی ہدایت کے مطابق عمل کرنے کے دوران کچھ نہ کچھ خود سے بھی ڈائزین ترتیب دیتی تھی اور معمولی کھیلنے والی چیزوں سے اور گھر میں ٹوٹیں پھوٹی چیزوں کو ترتیب دیکر سب بہنوں سے منفرد ہی ڈائزئن بنا لیتی اس طرح سے شوق بڑھتا گیا’ اور پھر اس شوق میں تعلیم کیساتھ ساتھ جدت آتی گی سب سے بڑی بات یہ کہ مجھے خود بھی نئی نئی چیزیں بنانے کا اور سیکھنے کا شوق بھی تھا اور دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس چیز کا انسان کو شوق ہو وہی چیز انسان دلجمعی سے کرتا ہے تو اسے کامیابی ملتی ہے اور کامیاب ہونے کے لیے صرف شوق کا ہونا ضروری نہیں بلکہ محنت و لگن بھی ضروری ہے۔
پاکستان اسپیشل:- آپ کو اپنے اس شوق کو بزنس میں تبدیل کرنے کا خیال کیسے آیا؟
رابعہ راحیل:- بات خیال کی نہیں ہے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میرا شوق میرا بزنس بنے گا کیونکہ مجھے کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کا شوق تو رہتا ہی تھا۔ اصل میں میرے اس شوق کو بزنس کے طور پر باقاعدہ شروع کروانے میں میرے شوہر کی محنت ہے’ میرے بیٹے کی بھی محنت ہے’ جو مجھے بار بار کہتے کہ اپنے شوق کو بزنس میں تبدیل کریں میری شادی کو 25 سال ہوچکے ہیں اور میں اپنے گھر کو بہت ہی اچھے طریقے سے ڈائزین کرتی رہتی تھی بڑی دور دور سے لوگ میرے گھر کو صرف دیکھنے کے لیے آتے رہتے تھے اور میں بھی نئے نئے طریقوں سے گھر کو ڈائزین کرتی رہتی تھی جس کو دیکھتے ہوئے راحیل مجھے کہتے کہ تم باقاعدہ اپنی کمپنی اوپن کرو کیونکہ میرا زیادہ وقت ملک سے باہر گزرا ہے تو پہلے پہل میں دوبئی میں کام کرتی رہی اور کافی سال پہلے جب پاکستان میں شفٹ ہوئی تو پھر میں نے Biaa’s Interior Designing کے نام سے اپنی کمپنی بنا لی۔ اور الحمداللہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے بہت کم عرصہ میں بہت زیادہ عزت دی اور آج میری کمپنی کا نام پاکستان بھر سے نکل کر مڈل ایسٹ اور یورپ تک پھیل چکا ہے۔ کیونکہ میں ڈائزئنگ کے مختلف شعبوں پر عبور رکھتی ہوں۔ میں فرنیچر ڈائزئنر بھی ہوں’ میں فیشن ڈائزئنر بھی ہوں’ میں وومن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اسلام آباد کی ایگزیکٹو ممبر بھی ہوں اس کے علاؤہ لائنز کلب اسلام آباد کی ممبر ہوں’ NLP کونسلر کی بھی ممبر ہوں اور زندگی کے رہن سہن کے مختلف شعبوں پر بلوگر بھی ہوں’ مگر سب سے زیادہ انٹرئیر ڈائزائنر کا کام میری پہچان بنا
پاکستان اسپیشل:- آپ نے کمپنی کا نام Biaa’s Interior Designing ہی کیوں رکھا اسکی کوئی خاص وجہ؟
رابعہ راحیل:- جی سلیم ناصر اصل میں اس نام کی خاص وجہ خود میری شخصیت ہے مطلب کہ کمپنی کا نام خود میرے نام سے منصوب ہے جیسے میرا نام رابعہ ہے تو گھر میں سب مجھے نک نام” بیہ” کہہ کر پکارتے تھے تو میں نے اپنے نام کے انگلش لفظ”R” کو ہٹا کر”Biaa’s” یعنی “S” کا اضافہ کر دیا تو اس طرح “بی۔ آز” بن گیا۔
پاکستان اسپیشل:- رابعہ آپ کو پاکستان کی پہلی سگنیچر لائن انٹرئیر ڈائزائنر کا بیسٹ ایکسی لینس ایوارڈ بھی ملا تو اس وقت کیسا محسوس کر رہی تھی آپ؟
رابعہ راحیل:- یقیناً اس وقت بہت ہی زیادہ خوشی محسوس کر رہی تھی میں جب مجھے پتہ چلا کہ میرا نام بیسٹ ایکسی لینس ایوارڈ کے لیے کنفرم ہو گیا ہے تو ایوانِ صدر میں 8 جون کو تقریب میں شرکت کرنی ہے مجھے یقین نہیں آ رہا تھا میں نے بہت بار کنفرم کیا کہ سچ میں مجھے پاکستان کی پہلی بیسٹ سگنیچر لائن انٹرئیر ڈائزائنر کا ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔ اور 8 جون کو میں ایوانِ صدر میں جب صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے ایوارڈ وصول کر رہی تھی تو اپنے والد مرحوم کو یاد کر کے میری آنکھوں میں آنسو آ گے تھے کیونکہ آج میں زندگی کے جس مقام پر بھی ہوں اپنے والدین کی دعاؤں سے ہوں’ والدین کے وجود سے ہی میرا وجود ہے میری ہستی کی پہچان میرے والدین ہی ہیں اور ایوارڈ لیتے وقت میرے دل سے والد مرحوم کے لیے دعا نکلی اور ایک وجدانی سی کیفیت میں دماغ میں ایک خیال گردش کر گیا کہ ” کاش میری زندگی کے اس یاد گار لمحے میں میرے والد میرے ساتھ ہوتے” ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے مگر میرے والدین نے بیٹے کی کمی پر کبھی اللّٰہ تعالیٰ سے شکوہ نہیں کیا بلکہ میرے ابو اکثر کہتے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے بیٹیوں کی صورت میں بیٹے دیئے ہیں۔
پاکستان اسپیشل:- وہ کون سا ایسا کارنامہ تھا جسکی بناء پر آپ کا نام بیسٹ ایکسی لینس ایوارڈ میں شامل ہوا؟
رابعہ راحیل:- سلیم ناصر پہلی بات کہ میں کسی کارنامے کا سوچ کر اپنا کام نہیں کرتی کہ مجھے فلاں فلاں پراجیکٹ مل جائے تو میں ان میں کارنامے سر انجام دوں بلکہ میں کام جس سطح کا ملے اسے خلوصِ نیت سے محنت کے ساتھ مکمل کرتی ہوں۔ اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے ایوب پارک کے میریکل گارڈن کو انٹرنیشنل طرز پر مکمل ڈائزئن کیا ہے جو میرے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے اس سے بھی بڑھ کر اعزاز کی بات یہ ھیکہ پاکستان کی پہلی سگنیچر لائن انٹرئیر ڈائزائنر خاتون ہوں میں جس نے اتنا بڑا پراجیکٹ مکمل کیا۔ یہ صرف گارڈن ہی نہیں اس میں اور بہت سے پراجیکٹ بھی شامل تھے جو میرے لیے کسی عزاز سے کم نہیں تھے۔ اس کے علاؤہ بھی اسلام آباد میں اور اسلام آباد سے ملحقہ بڑے شہروں میں بہت سے دفاتروں’ گھروں کو بھی ڈائزئن کیا ہے میں نے ہمارے ڈائزئن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے دوبارہ کاپی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سگنیچر لائن ڈائزئن ایک مرتبہ ہی بنتا ہے دوبارہ نہیں اور نہ ہی اس کی کاپی کی جاسکتی ہے۔
پاکستان اسپیشل:- آپ کے شوق کو بزنس کے طور پر شروع کرنے میں آپ کے شوہر کا نمایاں کردار ہے تو کیا شادی آپکی پسند کی تھی یا والدین کی؟
رابعہ راحیل:- پہلی بات کہ میری شادی میری پسند کی ہی تھی اور میں لاکھ شکر گزار ہوں اللّٰہ تعالیٰ کی اپنے والدین کی کہ میرے شوہر بہت ہی اچھے انسان ہیں اور ہم دونوں میاں بیوی کوئی کام مشورے کے بناء نہیں کرتے۔ تو میں نے اپنے شوق کو بزنس کی شکل اپنے شوہر کی اجازت کے بعد ہی دی اور اس میں میرے شوہر نے میری ہر قدم پر رہنمائی بھی کی اور ابھی بھی کرتے ہیں۔
پاکستان اسپیشل:- آپ کو لباس اور کھانے میں کیا پسند ہے؟
رابعہ راحیل:- مجھے لباس میں مشرقی طرز کا لباس پسند ہے مگر وقت کے ساتھ مشرقی لباس میں جدت اور فیشن کو زیادہ پسند کرتی ہوں’ جبکہ کھانوں میں پاکستانی کھانے سبزی میں بھنڈی اور گوشت میں مٹن زیادہ پسند ہے مگر زیادہ مصالحہ جات والے کھانے پسند نہیں۔
پاکستان اسپیشل:- آپ کو بزنس کے شوق کے علاؤہ کس چیز کا زیادہ شوق ہے؟
رابعہ راحیل:- جی مجھے نئی نئی جگہوں پر گھومنے پھرنے کا شوق ہے میں اکثر ہر تین چار ماہ بعد باہر کا دورہ کرتی ہوں اور نئی سے نئی جگہوں پر جا کر وہاں کے بارے سوشل میڈیا پر معلومات بھی فراہم کرنا اور شاپنگ کرنا’ زیادہ سے زیادہ وقت اپنی فیملی کو دینا مجھے بہت پسند ہے وہ لمحے میرے لیے سب سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں جو میں اپنی فیملی کیساتھ گزارتی ہوں۔
پاکستان اسپیشل:- آپ پاکستان میں بزنس خواتین کو کیا پیغام دینا چاہیں گیں؟
رابعہ راحیل:- میرا تمام بزنس خواتین کے لیے ایک ہی پیغام ہے کہ جو بھی کام کریں اس کو خلوصِ دل سے محنت اور لگن سے کریں میرا یقین ہے’کہ اللّٰہ تعالیٰ آپ کو محنت کا صلہ ضرور دیتا ہے۔ اور حکومتی سطح پر بھی ایسے قوانین بنائے جائیں جس سے خواتین کو بزنس کے زیادہ سے زیادہ مواقعے میسر ہوں۔

