
واہ رے انسان کیا تیری سوچ ھے
سنئیر صحافی و اینکر پرسن اورنگزیب بھٹی

واہ رے انسان کیا تیری سوچ ھے مجھے رونا بھی آتا ھے اور ہنسی بھی آتی ھے ھم کسی کے ھاں مہمان جاتے ھیں تو پھل و فروٹ سویٹ تحفے و تحائف کوئی کسر نہیں چھوڑتے کہ کہیں میزبان میرا دوست میرا عزیز میرے سسرال والے ناراض نہ ھو جائیں عارضی زندگی عارضی تعلق داری میں کتنا خیال رکھتے ھیں
کہ کوئی ناراض نہ ھو جائے
مگر ھائے افسوس مستقل ٹھکانہ کے لیے تو کیا کرتا ھے دھوکہ و فریب دغا بازی ناجانے دنیا کے کیا کیا کھیل ھیں جس سے دولت آئے ھر وہ ناجائز طریقہ جس سے دولت ملے
اے نادان انسان تو ھر وہ کام کرتا ھے دولت حاصل کرنے کے لئے جس سے دنیا کی ھر چیز تو خریدی جا سکتی ھے مگر آخرت کی کوئی چیز بھی نہیں خرید سکتا اگر تو سمجھتا ھے کہ اس ناجائز طریقے سے کمائی ھوئی دولت سے تو صدقہ و خیرات کسی مسجد کی تعمیر میں حصہ ڈال کر آخرت میں عذاب سے بچ جائے گا کبھی بھی نہیں کسی کے جذبات کا خون کسی کا حق مار کر ظلم و زیادتی کر کے آخرت کا عذاب ھی خرید سکتا ھے مقام عبرت تو بن سکتا ھے مستقل ٹھکانہ جہنم ھوگا مگر جنت کا مستقل ٹھکانہ نہیں ملے گا
واہ رے انسان کیا لکھوں تیری قسمت کہ تیری فریب کاری کہ تیری بدنصیبی دنیا کے رشتوں مطلبی معاملات کے لیے کیا کیا تحفے دیتا اور لیتا رھا ھے کہ اس دنیا میں رھنا ھے لوگ کیا کہیں گے جھوٹی انا اور جھوٹے رشتوں کی تسکین کے لئے دوستیاں نبھاتا رھا ھے اور حق کا ناحق خون کرتا رھا ھے زمینی خداؤں زمینی فرعونوں سے ھاتھ ملائے رکھا
مگر قرآن و سنت کی راہ سے بھٹک گئے کہ اصل گھر وہ جنت کا مقام مستقل ھے جس گھر میں رھنا ھے اس کے لیے
ھم نے کیا تحفے و تحائف لیے ھیں دنیا کی رشتے داریاں نبھاتے نبھاتے ھم نے اس آخرت کے گھر کے لئے عذاب اکٹھے کر لئے ھیں سانپ و بچھو اژدھا تھوہر اور پیپ اور آگ کے تحفے لے کر جائیں گے کیا ھمیں اس اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جاتے ہوئے شرم نہیں آئے گی دنیا میں تو کہتے تھے کہ ھماری تو ناک کٹ جائے گی اگر فلاں کو فلاں نہ دیں اچھے مہنگے سے مہنگے ملبوسات زیورات نہ پہنیں تو ھماری عزت نہیں ھو گی مگر جب اللہ تعالیٰ کے سامنےآئیں گے تو کیا منہ لے کر جائیں گے دنیا تو امتحان گاہ ھے جو دنیا میں بو گئے وہی آخرت میں ملے گا وہاں نیک اعمال ھی کام آئیں گے کوئی دنیا کی تعلق داری کام نہیں آئے گی
وہاں نہ کھڑکی ھو گی نہ باری ھوگی
وہاں نہ زیب یار ھو گا نہ یاری ھوگی
بس ھر سمت چیخ و پکار لگی ھو گی
دنیا کے فرعونوں کی حالت ماری ھوگی
بچاؤ بچاؤ چھوڑ دو کی صدائیں لگی ھوگی
جہنم کی آگ کی لپیٹ میں سواری ھوگی
ساتھ میرے وہ بھی تھا بحث لگی ھو گی
شامت آئے گی مگر قبر اپنی اپنی ھوگی
ابلتے آب پیپ و تھوہر کی سیبل لگی ھو گی
پیاس بھی شدت کی ھو گی مگر انکاری ھوگی
حشر کے عذاب میں موت جیسے لگی ھو گی
مگر یہ سب مکاری ھوگی سب مکاری ھو گی
کون بچتا ھے رب کے قہر سےزیب صدا لگی ھو گی
اپنے اپنے حصے کے سزائیں لینے کی تیاری ھو گی
کالم لکھتے ھوئے چند شعر قلم کی نوک نے تحریر کر دئیے جو حالات و واقعات پر پورا اترتے ھیں
میرے جتنے بھی آرٹیکل و تخلیق ھوتی ھے سب الہامی ھوتا ھے
واہ رے انسان کیا تیری سوچ ھے مجھے رونا بھی آتا ھے اور ہنسی بھی آتی ھے
تو کب سدھرے گا جہاں حق دینا ھے وھاں حق دیتا نہیں جہاں سے آخرت کا سفر شروع ھوتا ھے وہاں تو آتا نہیں جہاں سے تیری تباہی کا سفر شروع ھوتا ھے تو اس سمت جاتا ھے قرآن مجید میں بڑا تفصیل سے دجال کے بارے میں ذکر آیا ھے یہ مکمل آیات اس بات کی گواہ ھیں ویسے لوگ دنیا میں جھوٹی گواہی بھی دیتے ھیں کیوں ؟؟؟
دجال کی ایک مثال یہ ھو گی کہ وہ جو جنت کہے گا وہ جہنم ھوگی اور جو جہنم ھو گی وہ ہی اصل میں جنت ھوگی آج کے دور کی زندہ مثال جو کچھ موجودہ دور میں ھو رھا ھے یہ سب دجالی فتنہ ھے
یہ زمینی خدا ایک ھاتھ میں جنت اور ایک ھاتھ میں جہنم لے کر چل رھے ھیں آئے روز یہ سب مناظر ھماری آنکھوں کے سامنے پیش ھو رھے ھیں مگر ھم خود خواب خرگوش کے مزے لوٹ رھے ھیں اور اس نشے میں مست ھیں جو اہنا دین و ایمان بیچ رھے ھیں اور اس دجال کا شکار ھو رھے ھیں شاید کہ اترے جائے تیرے دل میں یہ بات اور وقت پر سنبھل جاؤ کہیں یہ نہ ھو کہ سورج ڈھل جائے اور ھم. ھاتھ مہلتے رہ جائیں اللہ تعالیٰ ھم سب کو صراط و مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے