
خصوصی رپورٹ ” تحفظ”عکاسی “احمد رضاء”
تحریر “محمد سلیم ناصر بیورو چیف پاکستان سپیشل میگزین اسلام آباد

آج معاشرے کی جس جنس پر مجھے لکھنے کا موقعہ ملا ہے اس میں عورت اور مرد کی ملی جلی عادات پائی جاتی ہیں اگر جسم مرد سے مشابہت رکھتا ہے تو اس کے اندر عادات عورت جیسی ہوتی ہیں یعنی نہ تو وہ مکمل مرد ہوتا ہے اور نہ ہی مکمل عورت’ اور میڈیکلی طور پر بھی اس کے اندر مردانہ اور زنانہ دونوں قوتیں نہیں ہوتیں۔ اور بہت سی بچیاں ایسی پیدا ہوتی ہیں جو بڑی ہو کر بظاہر مکمل عورت نظر آتیں ہیں مگر میڈیکلی وہ مکمل عورت نہیں ہوتیں یہی عمل بہت سے مرد بچوں میں بھی ہوتا ہے بظاہر تو وہ بچپن میں لڑکا پیدا ہوا مگر جب جوان ہوا تو میڈیکلی طور وہ مرد نہیں ہوتا۔ جب سے دنیا بنی ہے ایسے بچوں کو والدین رشتے دار دوست احباب سب بوجھ سمجھتے تھے کچھ تو ویسے ہی ایسے بچوں کو بدنامی کے ڈر سے پیدا ہوتے ہی مار دیتے اور کچھ ان کی زندگی بخشتے ہوئے ان بچوں پر بہت بڑا احسان کرتے اور انہیں انکی دنیا میں پلنے بڑھنے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انکی دنیا کونسی ہے؟ کیونکہ میری عقل اور سمجھ کیمطابق اللہ تعالیٰ نے یہی ایک دنیا بنائی ہے جس میں ہر کسی کو دین وحدانیت پر آزاد پیدا کیا ہے’ مگر انسان جہاں شرافت کا لبادہ اوڑھے پھرتا ہے وہاں اپنے آپ میں ایک خونخوار درندہ بھی ثابت ہوا ہے۔ ایسے بچے زمانے کے ٹھکرائے ہوتے تھے تو زندگی گزارنے کے لیے شہروں سے دور الگ محلوں یا بازار حسن میں رہائش اختیار کر لیتے تھے اور ناچ گانا سیکھ کر زندگی گزارنے کے لیے روزگار حاصل کرتے’ ان بچوں کے لیے شروع سے ہی مختلف نام استعمال ہوتے آئے ہیں اگر میں تاریخی مطالعہ میں جاؤں تو ان کی پہچان کے لیے ” ہیجڑا ” کا لفظ استعمال ہوتا تھا اور انہیں باقاعدہ بازار حسن میں مرد حضرات جسمانی تسکین کے لیے استعمال کرتے تھے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے’ ماضی میں انھیں بادشاہوں اور نوابوں کے درباروں میں بھی رکھا جاتا تھا وہاں ان کو تھوڑی بہت عزت دی جاتی تو نام ہیجڑا سے درباری ادب میں خواجہ سراء پکارا جاتا جہاں ان کا کام دربار میں داسیوں اور رقاصاؤں کو کلاسیکل رقص کی تربیت دینا ہوتا تھا۔ اور ایک زمانے تک محلوں اور درباروں سے یہ وابستہ رہے اور دور جدید میں بادشاہت کا سلسلہ ختم ہوتا گیا تو یہ لوگ مختلف علاقوں میں رہنے لگے اور چھوٹے چھوٹے گروہوں میں منقسم ہو گے۔ شادی بیاہ جیسی تقریبات میں ناچ گانا کر کے یا جب کسی علاقے میں بیٹا پیدا ہونا وہاں جاکر ناچ گانا کر کے روزی کمانا شروع کر دیا۔ مگر زیادہ تراب بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں۔ یہ تو ہے انکا مختصر سا تاریخی پسِ منظر اگر موجودہ دور کی بات کروں تو دل دہلا دینے والے ہولناک واقعات اخبارات میں پڑھنے اور ٹی وی چینلز پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثلاً تیزاب گردی’ جسمانی تشدد’ قتل و غارتگری جیسے واقعات ان کے ساتھ ہونا عام بات ہے۔
مگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ان کے حقوق کے لیے باقاعدہ قوانین بنائے گئے ہیں اور انھیں ڈس ایبل افراد ( معذور افراد) میں شمار کیا گیا’ پاکستان میں پہلی مرتبہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے آئین میں انھیں پاکستان کا شہری قرار دیا اور انکے حقوق دیئے مگر عملدرآمد کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر رہا خواجہ سراؤں کے حقوق پر مکمل عمل درآمد 2018ء میں قومی اسمبلی میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے بل کی منظوری کے بعد شروع ہوا۔ جس کے بعد بہت سی این جی اووز نے بھی ان کے حقوق کے حوالے سے مختلف پروگرامز پر کام شروع کر دیا’ جن میں سے ایک این جی او ” تحفظ مرکز ” نے بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا اور پنجاب پولیس کے باہمی تعاون سے پورے پنجاب میں رمضان المبارک اور پھر عید الفطر کے موقع پر راشن اور مختلف عید گفٹ وغیرہ خواجہ سراؤں میں تقسیم کرنے کے علاؤہ انھیں معاشرے کا باعزت شہری بنانے کے لیے مستقبل میں انکے لیے دینی و سماجی اور فنی تعلیم و تربیت کا بھی مناسب انتظام کیا ہے۔


عید الفطر سے چند روز قبل ایسی ہی ایک تقریب کا انعقاد تحفظ مرکز کی جانب سے ضلع رحیم یارخان کے تھانہ صدر میں بھی کیا گیا’ صدر سرکل انچارج اے ایس پی دانیہ رانا نے 100 سے زائد خواجہ سراؤں میں راشن بیگ اور عید الفطر کے تحائف مرحلہ وار دو مرتبہ تقسیم کئے۔ اس موقعہ پر اے ایس پی دانیہ رانا نے پاکستان سپیشل میگزین سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں ایک عرصے تک خواجہ سراء مرد اور عورت کے بعد ایک تیسری صنف میں شمار کیے جاتے تھے اور عام طور پر لوگ انھیں انسان دیکھتے ہوئے انسان قبول تو کرتے تھے مگر ان کیساتھ سلوک انسانیت سے گرا ہوا کیا جاتا تھا اور ان کیساتھ ذہنی سکون اور جسمانی تسکین کے لیے وقت گزارنا پسند کرتے تھے اور جب دل بھر جاتا تو کسی بھی بات کو لیکر ان سے مار پیٹ کرنا طرح طرح کی اذیتیں دینا معمولی بات ہوتی اور بہت سے خواجہ سراء تو حوانیت کی بھینٹ چڑھ گے

اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا مگر اب ایسا نہیں ہے خواجہ سراؤں کو باقاعدہ حقوق دیئے گئے ہیں جنہیں قومی شناختی کارڈ پر اپنی شناخت کا حق دیا گیا ہے پنجاب پولیس کی جانب سے آئی جی پنجاب پولیس اور تحفظ مرکز کے مابین خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایم او یو بھی سائن ہوا ہے’ جس کیمطابق تحفظ مرکز پنجاب پولیس کے تعاون سے خواجہ سراؤں کے لیے دینی و سماجی تعلیم و تربیت اور فنی تعلیم کا انتظام کیا جائے گا اور سرکاری اداروں میں ملازمتوں کا بھی حق دیا گیا ہے

جس کا منہ بولتا ثبوت ضلع رحیم یارخان سے محکمہ پولیس میں صبیحہ بی بی کا ہے جو پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہوئی اور اب لاہور میں پولیس ٹریننگ سینٹر میں اپنی ٹرینگ مکمل کر رہی ہے’ اے ایس پی دانیہ رانا کا مزید کہنا تھا کہ تحفظ مرکز کے تحت پورے پنجاب میں محکمہ پولیس کی جانب سے خواجہ سراؤں کے لیے دینی و سماجی تعلیم و تربیت اور فنی تعلیم کا بھی مناسب انتظام کیا گیا ہے اور انھیں صحت وتندرستی کے حوالے سے بھی ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی۔ دوران گفتگو انکا کہنا تھا کہ انھوں نے ایک ایک خواجہ سراء سے خود تعلیم کے حوالے سے بات چیت کی ہے اور اب 50 خواجہ سراء تحفظ مرکز کے تحت بنیاد فاؤنڈیشن میں زیر تعلیم ہیں جنہیں پڑھنے کا شوق تھا جس کا تمام انتظام محکمہ پولیس نے کیا ہے اور کچھ ہنر سیکھنے کے خواہشمند تھے انھیں فنی تعلیم دلوائی جا رہی ہے’ صحت کے حوالے سے جتنا ممکن ہوا مدد فراہم کی جائے گی۔ اے ایس پی دانیہ رانا نے تشدد جیسے واقعات پر سوال کے جواب میں پاکستان سپیشل میگزین کو بتایا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے جو جرم کرتا ہے وہ قانون کی گرفت میں ہو گا اور مجرم کو سزا سے کوئی نہیں بچا سکتا’ “ہم بنیں گے انکے محافظ” اب ظلم کے سیاہ بادل چھٹ چکے ہیں کسی بھی خواجہ سراء پر مارپیٹ جیسے پر تشدد واقعات کا فوری نوٹس لیتے ہوئے سخت سے سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی پنجاب پولیس نہ صرف خواجہ سراؤں بلکہ تمام معصوم شہریوں کے تحفظ کی ضامن ہے۔ میں اپنی ڈیوٹی میں کبھی بھی کسی پر بھی ظلم و بربریت برداشت نہیں کرتی۔ اے ایس پی دانیہ رانا کا کہنا تھا کہ تھانہ صدر رحیم یارخان صدر سرکل کا ماڈل تھانہ ہے جس میں سائلین کے لیے فوری سہولیات کا انتظام کرنے کیساتھ خواجہ سراؤں کو درپیش قانونی مسائل کے لیے بھی الگ ڈیسک قائم کیا جا رہا ہے جس کے لیے باقاعدہ الگ سے لیڈی تفتیشی افسر و لیڈی کانسٹیبل کو تعینات کیا جائے گا۔ اس موقعہ پر عام شہریوں کو میں پاکستان سپیشل میگزین کے پلیٹ فارم سے یہی پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اپنے اردگرد معاشرے میں بسنے والے ان معصوموں کا خیال کریں جنکے چہروں پر دوسروں کے لیے ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی ہے جتنی ہو سکے انکی مدد کریں اور اپنی زبان سے انکے لیے تمسخر یا تضحیک آمیز الفاظ کا استعمال نہ کریں جس سے انکی دل آزاری ہو۔ کیونکہ اپکے اس رویے سے وہ مارپیٹ تو نہیں کر سکتے مگر جو چوٹ انکے دل کو پہنچے گی اس کا اندازہ ہم میں سے کوئی نہیں کر سکتا اور پھر انکے ٹوٹے دل سے اگر بد دعا نکلی تو عرش ہلا دے گی اس لیے مظلوم کی بد دعا سے بچیں۔


