کالم کا نام”خاموشی میں سلامتی ہے” کالم کا عنوان”لفظ آئینہ ہیں
کالم نگار” محمد سلیم ناص

5 جون پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے “آلودگی کے عالمی دن” کے طور پر منایا جاتا ہے مختلف تعلیمی اداروں میں نامور سکالرز اور ڈاکٹرز صحت وتندرستی اور ماحول کو آلودگی سے کیسے پاک صاف رکھا جائے جیسے موضوعات پر لیکچرز دیتے ہیں جبکہ سرکاری سطح پر بھی مختلف سمینارز اور تقریبات منعقد کروائی جاتیں ہیں اور این جی اووز کے تعاون سے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے خصوصی واک کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے یہ تو 5 جون کے حوالے سے وہ محرکات ہیں جو پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر عالمی سطح پر سب اچھا ہے’ کہ تقاضے پورے کرنے یا دیکھاوے کے لیے کرنا ضروری ہے مگر حقائق اس کے برعکس کچھ اور ہی ہوتے ہیں’ آلودگی کے حقائق پر بات کرنے سے پہلے قارئین کو بتاتا چلوں کہ آلودگی کی مختلف اقسام ہیں جیسا کہ آبی آلودگی فضائی آلودگی شور کی آلودگی وغیرہ یہ تمام اقسام کے ملاپ سے آلودگی کی جو خوفناک اور خطرناک قسم وجود میں آتی ہے وہ ہے ماحولیاتی آلودگی’ جس میں آلودگی کی تمام اقسام شامل ہیں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرنے سے پہلے عربی زبان کی کہاوت کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ “اسکوت سلامتی” جس کا ترجمہ ہے ” خاموشی میں سلامتی ہے” اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی بھی طرح کے ظلم کو خاموش ہو کر سہتے جاؤ۔ اس کا دوسرا پہلو پر امن معاشرے کے قیام کا بھی ہے۔
کہتے ہیں کہ ماحول کا انسان کے رہن سہن پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ ماحول انسان خود بناتا ہے’ اور کسی حد تک یہ بات بلکل درست بھی ہے مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسا ماحول بنانا ہے؟ اگر پانی آلودہ ہے تو پانی کو آلودہ کرنے میں کس کا کردار ہے؟ اگر فضاء آلودہ ہو رہی ہے تو فضاء کو آلودہ کرنے میں کس کا کردار ہے؟ انسانی زندگی کی اکائیوں میں سے درخت بھیجا زندگی کی ایک اکائی ہے’ درختوں کا بے دردی سے بے دریغ قتل کون کر رہا ہے؟ سڑکوں پر بازاروں میں دورانِ سفر بلاوجہ مختلف قسم کے ہارن بجا کر شور شرابہ کر کے عوام والناس کے ذہنی سکون میں خلل ڈال کر شور کی آلودگی کو بڑھاوا دیکر ذہنی طور پر پریشان کون کرتا ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب خود حضرت انسان کی اپنی ذات اور ذات سے جڑی تسکین اور تسکین سے جڑی سوچ ہے جو یہ سب کچھ کروا رہی ہے’ اور پھر بھی انسان کس ڈھٹائی سے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتا ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جو شور کو آلودگی ماننے پر تیار ہی نہیں ہے جبکہ آلودگی کی سب سے زیادہ خطرناک قسم ہی شور ہے سائنسی ریسرچ کے مطابق انسانی کان 20HZ سے کم آواز نہیں سن سکتے اور 20000HZ سے اونچی آواز برداشت نہیں کر سکتے۔ اسی لیے دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں شور کو سب سے خطرناک آلودگی کی قسم تصور کیا گیا ہے اور اسلام نے 14 سوسال قبل بتا دیا کہ فضول بڑھاوا دیکر بات چیت کرنے سے شور شرابہ کرنے سے پرہیز کرو خاموشی اختیار کرو کیونکہ خاموشی میں سلامتی ہے کسی بھی انسان سے ایسی گفتگو نہ کرو جس سے اسے ذہنی تکلیف ہو یا دل آزاری ہو۔ سوچیں اسلام نے ایسا کیوں حکم دیا کیونکہ ماحول میں بگاڑ پیدا نہ ہو اگر ایسا ہو گا تو ماحول میں بگاڑ پیدا ہو گا جس کے نتائج بہت خوفناک ہوں گے مثلاً بات بڑھے گی شور شرابہ ہو گا جس سے اردگرد کا ماحول اور خراب ہو گا اور یہ سلسلہ اس قدر بڑھ سکتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر تباہی کا باعث بن سکتا ہے اور اتفاق سے اگر میں کہوں کہ اس وقت ہمارا پیارا ملک پاکستان شور کی آلودگی کی لپیٹ میں ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ ایک ایسی عادت جو کینسر کے وائرس کی طرح سے ہماری قوم کی ذہنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو اندر سے نگل چکی ہے اس عادت کا نام ہے “لکیر کے فقیر” ہم زندہ تو نظر آتے ہیں مگر ضمیر مردہ ہیں چلتے پھرتے ہیں کھاتے پیتے ہیں زندگی کے تمام امور بظاہر انجام دے رہے ہیں مگر آرام پرستی اور کاہلی اس قدر روح میں رچ بس گی ہے کہ اپنے اردگرد گرد مشاہدہ کرنے کی بجائے لکیر کے فقیر بن کر فوراً دوسروں کی کہی باتوں پر بحث و مباحثہ کر کے وقت ضائع کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں مگر کبھی سکون سے بیٹھ کر خود کی ذات کا مشاہدہ کرنے کو تیار نہیں کہ خود کس حد درست ہیں ماحول کو پاک صاف کرنے کے لیے عملی طور پر بارش کا پہلا قطرہ بننے کو تیار نہیں’ 5 جون کو ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے واک کی جائے گی مگر واک میں شریک شرکاء پینے کے پانی کی خالی بوتلیں سڑک پر ہی پھینک دیں گے بہت سے شرکاء نے پینا فلیکس بینرز پمفلٹ اٹھا رکھے ہوں گے مگر واک ختم ہونے پر سڑک کے کنارے یا کسی کھیل کے میدان میں یا پارک کے گراؤنڈ میں پھینک دئیے جائیں گے مگر واک ماحول کو پاک صاف رکھنے کے لیے کی گی ہے ساحل سمندر پر سیرو سیاحت کے لیے بڑے شوق سے لوگ جاتے ہیں وہاں کھانا پینا فاسٹ فوڈ اور ہوٹلنگ کرتے ہیں مگر صفائی کا ذرہ بھر بھی خیال نہیں رکھتے اور تمام کچرا سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے اور خود ہی آبی آلودگی پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اور اس کام میں اکثریت پڑھے لکھے لوگوں کی ہی ہے میڈیا کوریج کے سامنے بڑے بڑے دعوے کرنے والے خود ہی ماحول کو آلودہ کرنے میں پیش پیش ہیں جسکی دوسری بڑی مثال ہماری انڈسٹریز ہیں کیمیکلز فیکٹریز اور ملیں ماحول کو ہر لحاظ سے آلودہ کرنے میں پاکستان میں نمبر ون پر ہیں جن کے کیمیکلز سے نکلنے والا زہریلہ مادہ نہ صرف زیر زمین پانی کو آلودہ کر رہا ہے بلکہ ان فیکٹریوں اور ملوں میں نصب مختلف پلانٹس سے خارج ہونے والی گیسیں فضائی آلودگی کی باعث بن رہی ہیں اور کام کے دوران شور سے پیدا ہونے والی آلودگی لوگوں کی نفسیات پر الگ اثر انداز ہوتی ہے جس کا نتیجہ عدم برداشت اور ذہنی تناؤ کی وجہ سے گھریلو زندگی میں اور معاشرتی زندگی میں خطرناک جرائم کی صورت میں ہمیں آئے روز مختلف ٹی وی چینلز پر خبروں میں سننے اور اخبارات میں پڑھنے کو ملتا ہے’ دنیا بھر میں مختلف موضوعات پر اکثر ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں مگر یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ان میں مختلف انسانی منفی رویوں پر پاکستان کی مثال دی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کبھی ہم نے یہ سوچا’ باقی سب کی بات نہیں کرتا کم سے کم روزانہ چند منٹ نکال کر ہر پاکستانی صرف اپنی ذات کے بارے اتنا ہی سوچ لے کہ آج کے دن جو کچھ بھی کیا اس نے وہ کس حد تک درست ہے جب ہم سب اپنے کام میں اچھائی اور برائی کے تناسب کا اپنی ذات سے خود احتساب کریں گے تو نہ صرف ماحول کی آلودگی کو شکست دینے میں کامیاب ہوں گے بلکہ روح کی آلودگی سے بھی نجات مل جائے گی اور پر امن معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا۔ ماحولیاتی آلودگی کی جنگ جیتنے سے پہلے ہر پاکستانی کو ذہنی آلودگی سے نجات پانی ہو گی اور دوسروں کی کہی باتوں اور بیانات کے شور شرابے اور توہمات کے نکاروں کا شور سن کر اس شور کی پیروی کرنے کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہو گا پھر جا کر ہم یہ جنگ جیت سکیں گے۔