اصلاح معاشرہ
تحریر۔ندیم احمد اعوان
ہمارے بڑے ہمیں یہ تعلیم دیتے آئے ہیں کہ دوسروں کیلئے معاون و مددگار بن جائیں، آسانیاں پیدا کریں ، رہنما بن جائیں اور اگر ہم کسی کیلئے یہ سب کر گزرتے ہیں تو دوسرے معانی میں ہم نے احسان کیا۔احسان کرنا اللہ پاک کو بہت پسند ہے، اور احسان جتلانے کو معیوب سمجھا جاتا ہے ، یعنی اس سے ہمارا اجر ضائع ہو جاتا ہے ۔ اللہ پاک کا فرمان ہے احسان کا بدلہ احسان ہی ہے ، جو اچھا کرے اس کے ساتھ اچھا کریں یہی اطوار مسلم اور حکم ربی ہے۔ ہمارے جدید ترقی یافتہ معاشرے نے اس کو نیا رنگ دے دیا ہے، لوگ احسان کرتے ہی اس لیے ہیں کہ بعد میں اس سے اپنی ضرورت پوری کی جا سکے اور اگر کوئی بوجوہ مجبوری آپ کے احسانات کے بدلے کوئی کام نہیں کر پاتا تو اسے بد ترین ’’احسان فراموش ‘‘ کہا جاتا ہے۔ پھر بتدریج اسے باور کرایا جاتا ہے کہ یہ انسان احسان کرنے کے قابل نہیں یہ تو ہے ہی احسان فراموش اور وہ بیچارہ خود داری اور احسان کے بوجھ تلے مرجاتا ہے۔اس تلخ حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ پہلے خوداری کی انتہا کر دی جائے اور کسی کو موقع نہیں دیا جائے ۔ اگر بد قسمتی آپ اس کو شش میں ناکام ہو جاتے ہیں اور کسی بھلے انسان کے احسان کی زد میں آجاتے ہیں اور بوقت ضرورت آپ اس کی ضرورت پوری کرنے سے قاصر رہتے ہیں تو پھر تیار رہیے، اگلے پل رسوائی آپ کا مقدر بننے والی ہے اور آپ احسان فراموش کی فہرست میں ڈال دئیے جائیں گے قطع نظراس کے کہ آپ نے عزت نفس کو اہمیت دی ہے۔
عزت نفس ایک ایسی چیز ہے جس پہ انسان سمجھوتہ نہیں کرتا ، حالانکہ بنتا یہی ہے کہ ہمیں ہر حال میں اپنے محسن کا احسان مند رہناچاہئے ، ان کی عزت کرنی چاہئے کیونکہ وہ اس کامستحق ہے۔کیا یہ بات درست ہے کہ احسان کے بدلے احسان کرتے ہوئے آپ اپنی عزت نفس کو مجروح کر دیں؟ کیا یہ ٹھیک ہے کہ سامنے والے کے احسان تلے دب کر آپ ایسے فیصلہ کرنے کے مر تکب ہو جائیں، جس سے آپ اپنی نظروں میں گر جائیں ؟ آپ اپنی زندگی کو جہنم بنا دیں یا اپنی عزت نفس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ضمیر کے منافی کام بھی کر ڈالیں؟ اس لئے کہ سامنے والے کے آپ پر بہت زیادہ احسانات ہیں ۔ تو برائے مہربانی بخوشی احسان فراموشی کو قبول کیجیے کیوں کہ آپ ہر بات پہ سمجھوتہ کر سکتے ہیںمگر عزت نفس اور ضمیر کا سودا نہیں کر سکتے ۔انا کا مسئلہ تو الگ ہے ، عزت نفس الگ بعض فیصلے ایسے ہوتے ہیں ہم انا کو مد نظر رکھتے تو ہیں مگر فیصلہ جو بھی ہو قبول کرتے ہیں۔عزت نفس میں ہم ایسا بالکل نہیں کرسکتے اگر ہم اپنی عزت نفس کو پامال کرتے ہیں تو دوسروں سے عزت کی کیا توقع رکھتے ہیں۔سو لازم ہے کہ ہمیں اپنے محسن کا شکر گزار رہناچاہئے اور جب اسے ضرورت پڑے تو پیچھے نہیں ہٹناچاہئے لیکن ایسی مددنہیں کرنی چاہئے جس سے آپ کی شخصیت ، آپ کے اخلاقی اقدار پہ انگلیاں اٹھنے لگیں ۔