
“خصوصی سروے رپورٹ”
تحریر: محمد سلیم ناصر بیورو چیف پاکستان سپیشل میگزین اسلام آباد

جہاں دنیا بھر میں معذور افراد کی فلاح وبہبود اور حقوق کے لیے نئے نئے قوانین متعارف کروائے جا رہے ہیں وہی افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں معذور افراد کی فلاح وبہبود اور حقوق کے تحفظ کا میعار صرف فوٹو سیشن وعدہ وعید اور تحریروں کی حد تک سمٹ کر رہ گیا ہے عملی طور پر ہم خود اور ہماری حکومت اس حوالے سے مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔
اس حوالے سے ڈسٹرکٹ رحیم یارخان میں معذور افراد کے حقوق پر پرائیویٹ اور گورنمنٹ سیکٹرز کے دفاتروں کا خصوصی سروے کیا گیا’ تو انتہائی شرمناک صورتحال سامنے آئی ہے ڈسٹرکٹ رحیم یارخان جسکی سرکاری نتائج کے مطابق اس وقت آبادی تقریباً 50 لاکھ تک پہنچ چکی ہے جب غیر سرکاری نتائج کے مطابق 60 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور کل آبادی کا 5 فی صد معذور افراد کا تناسب تقریباً 3لاکھ بنتا ہے اب اگر معذور افراد کے حقوق پر بات کروں تو نتائج بہت خوفناک اور شرمناک ہیں سب سے پہلے تو واضح کرتا چلوں کہ تمام بنک اور مالیاتی اداروں میں وئیل چیئر معذور افراد کے لیے ریمپ بنائے گے ہیں مگر چند بنکوں یا اداروں کے ریمپ کار آمد ہیں بقیہ تقریباً 90 فی صد ریمپ صرف ادارہ بند نہ ہونے کے ڈر سے بنا کر دیکھاوا کروا دیا کہ ہم نے ریمپ بنا رکھا ہے مگر وہ استعمال کے قابل نہیں کیونکہ ریمپ کی سلائیڈ ایک دم سے اونچائی کی طرف سیدھی کر دی گی ہے یعنی اس سلائیڈ میں ایک تسلسل نہیں ہے جس کا نقصان یہ ہے کہ اگر کوئی وئیل چیئر اس ریمپ کو استعمال کرئے تو وہ فوراً الٹ جائے گی جس سے وئیل چیئر یوزر کو کافی زیادہ چوٹ لگ سکتی ہے۔ جبکہ گورنمنٹ سیکٹرز کے تمام دفاتروں میں ریمپ کی شرح کا تناسب ایک فی صد ہے وہ بھی اس طرح سے کہ اگر کسی دفتر میں داخل ہونے کے لیے ریمپ بنا ہوا ہے تو اس دفتر کے بقیہ حصوں میں جانے کے لیے کہیں بھی کوئی ریمپ نہیں ہے یعنی وئیل چیئر سائل دفتر میں داخل ہونے کے بعد ادھر ادھر دیکھے گا کہ کوئی اسکی مدد کرئے۔ اور سوائے علامہ اقبال یونیورسٹی کیمپس کے علاؤہ یا سپیشل ایجوکیشن اسکولز کے علاؤہ باقی کسی بھی گورنمنٹ تعلیمی ادارے میں ریمپ نہیں ہے بہت سے معذور افراد عام تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں یا کوئی سائل ایسا آ جاتا ہے جو معذور ہو تو اس کے لیے اسکول کالج یا یونیورسٹی میں داخل ہونے کے لیے کافی مشکل ہوتی ہے اور کافی دیر تک وہ بیچارہ وئیل چیئر اٹنڈنٹ کی امداد کے لیے انتظار کی سولی پر لٹکا رہتا ہے۔ ڈسٹرکٹ رحیم یارخان شہر کے وسط میں قائم واپڈا سرکل آفس میں چند روز پہلے ایک دل دہلا دینے والا واقع رونماء ہوا ایک معذور شخص جو کہ سائیکل وئیل چیئر پر اپنا بجلی کا بل درست کروانے کے لیے آیا اور کافی دیر سوچ میں ڈوبا رہا کہ میں دفتر میں داخل کس طرح ہونا ہے’ کافی دیر تک میں اس شخص کو دیکھتا رہا کہ ہو سکتا ہے اس کے ساتھ کوئی آیا ہو یا اتنے رش میں کوئی شخص اس معذور کی مدد کرئے مگر افسوس کہ اس بے حس ہجوم میں کسی ایک نے بھی اس معذور لاچار بے بس’ مجبور شخص پر توجہ نہ دی کچھ دیر تک یہ سب منظر دیکھنے کے بعد میں اس شخص کے پاس گیا اور اس کی آنکھوں میں غور سے دیکھا جیسے وہ اللّٰہ تعالیٰ سے شکوہ کر رہا ہو کہ کاش میری ٹانگیں ہوتیں’ خیر میں نے اس سے اس کا مسئلہ پوچھا اور اس سے بل لیکر دفتر گیا بل کی درستگی کروائی اور چلا آیا اور سوچتا رہا کہ واپڈا سرکل آفس کی چار منزلہ عمارت میں ایک بھی ریمپ نہیں اسپیشل افراد کے لیے کوئی الگ کاؤنٹر نہیں بلکہ اسپیشل افراد کے حقوق کے حوالے سے کچھ بھی نہیں ہے۔ دوسرا چونکا دینے والا انکشاف مجھ پر تب عیاں ہوا جب مجھے ایک ضروری کام سے ڈپٹی کمشنر بلاک جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں پر کوئی ریمپ نہیں تھا۔ اس سے بڑھ کر چونکا دینے والا انکشاف یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر دفتر کے نیو بلاک میں جو ابھی زیر تعمیر ہے اس میں داخلہ کے لیے ریمپ کہیں بھی زیر تعمیر نظر نہیں آیا جبکہ سیڑھیوں کیساتھ ساتھ ایک منزل سے دوسری منزل تک جانے کے لیے بھی کوئی جنرل ریمپ تعمیر نہیں کیا گیا اور یہ صورتحال تمام سرکاری و پرائیویٹ دفاتروں میں تا حال قائم ہے۔
ماشاءاللہ سے ہم ایٹمی طاقت ہیں’ چاروں موسم سے اللّٰہ تعالیٰ نے نوازہ ہے ہماری مٹی سونا اگلتی ہے ہمارے شمالی علاقے دنیا کے بہترین سیاحتی مقامات میں شمار ہوتے ہیں ہر لحاظ سے اللّٰہ تعالیٰ اپنی نعمتوں سے ہمیں نوازہ ہے مگر کمی ہمارے خود کے اندر ہے جو اختیارات کی کرسی پر بیٹھا ہے وہ بھی اختیارات کو اپنے مفاد اور اپنے سے اوپر والوں کی خوشامد کے لیے استعمال کرتا ہے ہم حقوق کی بات کرتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے جب عمل کرنیکی کی باری آتی ہے تب گڑھے مردے اکھاڑنے میں الزام تراشی اور توہمات کی بھر مار میں کسی کی نہیں سنتے۔ اب حقوق پر عملدرآمد کے لیے کسی وزیر مشیر یا سرکاری افسر سے اپیل نہ کریں بس ہر انسان اپنی زمہ داری کو احسن طریقے سے انجام دے تو بہت سے مسائل خود بہ خود حل ہو جائیں گے۔

