
معذور افراد کے معذوری سرٹیفیکٹ اور قومی شناختی کارڈ بنانے کے طریقہ کار کو آسان بنایا جائے۔ فرینڈز آف پیراپلیجکس
تحریر : مشتاق حسین مہمند

اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں،جس کی آبادی بائیس کروڑ ہے ،ویسے تو بدقسمتی سےیہاں ہر فرد کسی نہ کسی معاشی یا معاشرتی مسائل سے دو چار ہے،جس کی تفصیل پر بڑے بڑے ادیبوں،دانشوروں کے علاوہ بہت سےبہترین لکھاریوں اور محققین نے کتابیں لکھیں ، کالمز، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ٹاک شو زکے علاوہ اس ملک کی بقاء اور سلامتی کے لئے اپنی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے قلم کے ذریعے بھر پور جہادکیا اور کر رہیں ہیں، ہمارے ملک پاکستان میں مختلف مذاہب سے تعلق والےلوگ بستے ہیں، اقلیتوں میں شامل عیسائی،ہندو،سکھ اور دیگر مذاہب والے لوگ رہتے ہیں اور یہ نہ صرف پاکستان میں ہیں بلکہ دنیا بھر میں ہر مذہب والے لوگ رہتے ہیں،اور پوری دنیا میں اقلیتوں کو انکے تمام تر جائز حقوق دینا اس ملک یا ریاست کی آیئنی اور قانونی ذمے داری ہوتی ہے،کیونکہ یہ ذمے داری دین اسلام نے دنیا بھر کے مسلمانوں اور پوری دنیا کے انسانوں پر لاگو کیا ہے۔ہمارے ملک پاکستان میں اقلیتوں کے علاوہ ایک طبقہ ایسابھی رہتا ہے جنہیں عام طور پر لوگ ،،معذور افراد،، کہتے ہیں میں ہمیشہ اپنی رجسٹرڈ فلاحی تنظیم ، فرینڈز آف پیراپلیجکس، کے پلیٹ فارم سے ان معذوروں کے جائز حقوق کے لئے اپنے قلم کا استعمال کرتا ہوں

کیونکہ قلم کی طاقت سے بہترین طاقت کوئی نہیں ہے، ہماری اس فلاحی تنظیم میں شامل تقریباٍ نوئے فیصد افراد کسی نہ کسی جسمانی معذروری کے ساتھ ایک بہترین زندگی گذار رہیں ہیں،اور ہم سب مل کر اجتماعی طور پر دیگر معذور افراد کے حقوق اور جامع بحالی کیلئے کام کرتے ہیں ،ویسے تو میں پچھلے تقریبا دو دہائیوں سےاپنی اور اپنی کمیو نٹی کے حقوق کے لئے مختلف اخبارات، میگزینزکے ساتھ ساتھ نجی ٹیلی وژن چینل پر خصوصی پروگراموں میں بھی شرکت کرتا ہوں، اور خاص کر سوشل میڈیا ،جو آج ہر مکتبہ فکر کے لوگ استعمال کر رہیں ہیں ، اور انہی تمام ذریعہ ابلاغ کی وجہ آج ہماری آواز ملکی اور بین الاقوامی سطح تک پہنچ چکی ہے،لیکن بدقسمتی سےپچھلے ستّر سالو ں سے جسمانی اور ذہنی معذور طبقےکے لوگ اپنےان تمام جائز حقوق سے محروم ہیں،پچھلی حکومتوں نے تو ان معذور افراد کو بری طرح نظر انداز کیا تھالیکن موجودہ حکومت نے معذور افراد سے جتنے وعدے کئے تھے کہ معذور افراد کیلئے ایسی قانون سازی کریں گے، جن سے انکے تمام جائز حقوق انکو انکی دہلیز پر بہم پہنچائیں گے، لیکن تاحال کوئی مرطوب جامع پالیسی ابھی تک نہیں بن سکی ، لیکن اس بات کو نظر انداز کرنا بھی غلط ہوگا کہ پچھلی حکومتوں کی نسبت موجودہ حکمرانوں نے کا فی حدتک معذوروں کوسپورٹ کرنے کی کوششیں کیں۔
آئیے آج میں اپنی تنظیم فرینڈز آف پیراپلیجکس کے پلیٹ فارم سےایک انتہائی اہم بات کی طرف آپ کی اور موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ معذور افراد جب قومی شناختی کا رڈ جن میں وہیئل چئیر کا نشان ( لوگو) ہوتا ہے اس قومی شناختی کارڈ بنانے کے لئے ایک جسمانی یا ذہنی معذورفرد کوجن جن کٹھن مراحل سے گذرنا پڑتا ہے، اس کارڈ کو بنوانے کا طریقہ کار یہ ہےنمبر (1)سب سے پہلے تومعذور فرد کو سوشل ویلفئر کے دفتر جانا پڑتا ہے وہاں سے ایک فارم لیکر اس میں اپنے تمام کوائف بھرتا ہے،اب اس کے بعد نمبر (2) پہ اس پر شدہ فارم کو لیکر سرکاری ڈاکٹری معائنے کے لئے سول ہسپتال جانا پڑتا ہے، ڈاکٹری معائنے کی تصدیق کے بعد نمبر(3) یہ معذور فرد جائے گا ٹیکنیکل ٹرینگ سنٹر،جہاں دفتر روزگار سے ایک سرٹیفیکٹ لینا پڑتا ہے ، اس کے بعدنمبر( 4) پران تمام مراحل سے گذرنے کے بعدتمام پر شدہ اور تصدیق شدہ اسناد کو لیکر واپس سوشل ویلفئیر کے آفس میں آکرجمع کروادیتے ہیں ، اور مجاز اتھارٹی انکو معذوری سر ٹیفیکٹ کے وصولی کےلئے لگ بھگ ایک ڈیڑھ ماہ کا وقت دے دیتے ہیں،مذکورہ وقت گذرنے کے بعداگر خو ش قسمتی سے ان کا سرٹیفیکٹ تیار ہو تو پھر یہ معذور فرد بیچارہ افسران بالاکا بہت بہت شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام دستاویزات لیکر (5) اور آخری نمبر پر یہ معذور فردنادرا آفس آکر تمام دستاویزات انکو دے کر وہی پہ نئےسرے سے تصویریں اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں لگا کر پھر سے وہئیل چئیر والے شناختی کارڈ کے پیچھے کئی مرتبہ نادرا آفس کے چکر لگا لگا کر آخر کار یہ معرکہ بھی سر کر لیتا ہے،اور یوں اس معذور فرد کو وہئیل چئیر لوگو والا شناختی کارڈ مل جاتا ہے۔

اب جب کوئی معذور فرد اتنی مشکل مراحل سے گذرنے کے بعد معذوری سرٹیفیکٹ یا شناختی کا رڈ حاصل کر بھی لیتا ہے پھر وہ بیچارہ نوکری کے لئے جگہ جگہ اپنی اعلی تعلیم یا مڈل، میٹرک اور یا پھر فنی تعلیم کے اسناد کسی بھی سرکاری نیم سرکاری یا پرائیویٹ کمپنیوں میں نوکریوں کے لئے سرگرداں پھرتے رہتے ہیں لیکن ہر جگہ ان کو یہ کہہ کردھتکار دیا جاتا ہے کہ یہاں اچھے بھلے لوگوں کو نوکری نہیں ملتی تم تو پھر معذور ہو لیکن حکومتی نوٹیفیکیشن کے مطابق تمام ملازمتوں میں دو فیصد کوٹہ معذور افراد کیلئے مختص ہے لیکن بدقسمتی سے اس پر عمل در آمد نہیں ہوتا، اس کے علاوہ بھی معذوروں کے بہت زیادہ مسائل ہیں، جن کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔
اب بہت سارے معذور افراد یہ خصوصی شناختی کارڈ اس لئے نہیں بنا پاتے ہیں کہ اتنے لمبے چھوڑے عمل سے گذرنا ایک صحت مند انسان کے لئے بھی انتہائی مشکل ہوتا ہے ،معذور تو پھر معذور ہوتا ہے نہ تو ان کے پاس اتنے پیسے ہوتے ہیں ،کہ ایک ایک دفتر کے بیشمار دفعہ چکر لگائے کیونکہ عام پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا انکی جسمانی معذوری ان کے راستے میں حائل ہوجاتی ہے ،اور اسپیشل ٹیکسی کو ہزاروں روپے دینا بھی ان معذور مجبور کے بس کی بات نہیں ، لہذا ایک طرف جسمانی معذوری ہو جاتی ہے دوسری طرف ہر دور کے حکمرانوں کی بے حسی ، کیونکہ آج تک معذور افراد کے لئے کوئی ٹھوس اور جا مع پالیسی نہیں بنوائی گئی جن سے معذور افراد ہر لحاظ سے مستفید ہو جائے، اس پر ہماری تنظیم فرینڈز آف پیراپلیجکس اور دیگر معذور افراد کے لئے کام کرنے والی فلاحی تنظیموں نے لاتعداد مرتبہ حکومتی نمائندوں سےرابطے کئے کہ معذور افراد کے لئے ایک ٹھوس اور مکمل طور پر آئین اور قانون کے دائرے میں ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جن سے ملک بھر کے تقریبا ڈھائی تین کروڑ پر مشتمل معذور افراد کے تمام جائز مسائل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جائے، دنیا بھر کےدیگر ممالک میں معذور افراد کے لئےاس طرح کی پالیسیاں حکومتی سطح پر بن چکی ہیں جن سے معذور لوگ ایک بہترین زندگی گذار رہیں اور ایک عام فرد کی طرح اپنے ملک کی خدمت میں پیش پیش ہیں، ہماری کمیو نٹی کے ہر فرد نے باربار ہر دور حکومت میں اور بالخصوص موجودہ حکومت سےبار بار درخواستیں کی کہ کم از کم اس معذوری سرٹیفیکٹ اور خصوصی شناختی کارڈ کےحصول کو ایک ہی چھت کے نیچے تمام مجاز اتھارٹی کو بٹھا کر ان کو معذور افراد کو پانچ پانچ دفتروں کے چکروں سے نجات دلایا جائے تا کہ ہر معذور فرد خصوصی شناختی کارڈ بنانے کے اس تکلیف دہ مراحل سے آزاد ہو جائیں، اور قومی شناختی کارڈ بنانے میں دلچسپی لیکر آرام سے ایک چھت کے نیچے ان کو سہولت میسرہو۔ اور حکومت وقت اس مخصوص کارڈ اور دیگر تمام سرکاری دستاویزات کومعذور افراد کے لئےلائف ٹائم یعنی تاریخ تنسیخ سے مبّرا کر دے؛ کیونکہ یہ ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے، لہذا ہم ملک بھر کے ڈھائی تین کروڑ معذور افراد حکومت اور تمام سرکاری اور غیر سر کاری افسران کے انتہائی مشکور رہیں گے۔