
خود اعتمادی کے ہتھیار سے خصوصی خواتین اپنے تمام مسائل حل کر سکتی ہیں
تحریر: فوزیہ لونی

۔ ایگزیکٹو ڈاریکٹر (نیشنل فارم فار وومن ود ڈس ایبلٹی) 2۔ گروپ ممبر انسیپشن
خاندانی پس منظر:
والد صاحب محکمہ لائیو سٹاک میں ملازم ہیں۔ خاندان چھ بہنوں اور دو بھائیوں پر مشتمل ہے۔ بڑے بھائی سرکاری ملازم ہیں، تعلیم ایم ا-ے ہے، تین بڑی بہنیں شادی شدہ ہیں تینوں نے بی-اے تک تعلیم حاصل کی،
سوال: معذوری کا شکار کیسے ہوئیں؟
آٹھ ماہ کی عمر میں پولیو کا شدید اٹیک ہوا۔ شدید بخار کے ساتھ ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ والد صاحب نے برسرروزگار نہ ہونے کے باوجود بہت بھاگ دوڑ کی۔ علاج کیلئے کوئٹہ کے متعدد چکر بھی لگائے۔لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے علاج کا سلسلہ ذیادہ عرصہ نہیں چل سکا۔
سوال: بچپن کیسا گزرا کس قسم کے کھیل کھلا کرتی تھیں؟
بچپن میں نپی تلی رہتی ہیں۔ ہلکی پھلکی شیطانیوں کے ساتھ سنجیدگی کا عنصر نمایاں تھا۔ دل میں عام بچوں کی طرح بھاگنے دوڑنے کی خواہش تو رہتی تھی ۔ لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ گڑیوں سے کھیلنا انھیں تیار کرنا ان سے باتیں کرنا بے حد پسند تھا۔
سوال: ابتدائی تعلیم کے حصول میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
میٹرک تک تعلیم اپنے گاؤں کے سکول سے حاصل کی۔ ابتدائی ایام میں ویل چیئر نہ ہونے کی وجہ سے بڑی بہنیں گود میں اٹھا کر سکول لایا اور لے جایا کرتی تھیں۔ ویل چیئر خرید لینے سے مشکلات میں کچھ کمی ضرور آئی لیکن رسائی کے مسائل اسی طرح برقرار رہے۔ سکول میں ریمپ نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سکول انتظامیہ نے مسئلے کا نوٹس لیتے ہوئےریمپ بنوا دی۔ اساتذہ ہمدردانہ رویئے کی وجہ سے فوزیہ میٹرک اچھے نمبروں پاس کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
سوال: کالج کیسے آیا جایا کرتی تھیں؟
فوزیہ کیلئے سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ گردونواح میں کوئی کالج نہیں تھا۔ نزدیک ترین کالج گاؤں سے کئی کلومیٹر دور شہر میں واقع تھا۔ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ مالی مسائل کا تھا۔ والد صاحب معمولی سی ملازمت کے ساتھ بڑے خاندان کا بوجھ اٹھا رہے تھے۔ لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور فوزیہ کو تعلیم جاری رکھنے کا کہا۔کالج آنے جانے کیلئے ایک وین لگا دی۔ وین میں اترنے چڑھنے میںسہلیاں مدد فراہم کر دیا کرتی تھیں۔ ویل چیئر کو ساتھ لے کر کالج جانا ایک مسئلہ تھا اسلیئے ایک اضافی ویل چیئر کالج میں رکھ دی گئی۔
کالج کی تعلیم کے مسائل سکول سے مختلف نہ تھے۔ ریمپ، کلاسسز کا اوپر نیچے ہونا، باتھ تک رسائی میں مشکلات سب ویسا ہی تھا۔ لیکن اب فوزیا ماضی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ چکی تھیں۔ اسلیئے ہر مسئلے کا حل فوری طور پر نکال لیا کرتی تھیں۔ خیر ان ساری مشکلات کے باوجود اچھے نمبروں سے گریجوئیشن کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔
سوال: سب اس بات پر کیوں بضد تھے کہ آپ کو یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لینا چاہیے؟
بی-اے کے بعد خاندان کے بہت سے لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ فوزیہ کو مذید تعلیم نہیں حاصل کرنی چاہیے۔ یونیورسٹی آنا جانا، ہاسٹل میںرہنا انکے لیئے کسی چلینج سے کم نہیں ہوگا پھر مذید تعلیم حاصل کر کے کیا کر لینا ہے ۔
مالی مشکلات کا شکا خاندان تذبذب کا شکار تھا۔ بات انکل تک جا پہنچی جنکی بات خاندان میں سنی جاتی تھی۔جنھوں نے بڑی خوبصورتی سے تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو بیان کیا۔ انکل نے کہا کہ خصوصی لڑکی کیلئے تعلیم کسی ہتھیار سے کم نہیں۔ تعلیم کے بلوتے پر انھیں اچھی نوکری حصول کے ساتھ باوقار زندگی بھی گزاری جاسکتی ہے۔ انکل کا متاثر کن لیکچر فوزیہ کے یونیورسٹی میں داخلے کا سبب بنا۔
سوال: یونیورسٹی کا دور کیسا رہا؟
یونیورسٹی میں اساتذہ، انتظامیہ اور دوستوں کا بھر پور ساتھ رہا۔ رسائی کا مسئلہ ہمیشہ کی طرح اول نمبر پر رہا۔ یونیورسٹی کافی اونچائی پر واقع تھی۔ مینول ویل چیئر کے سہارے چڑھائی نہیں چڑھی جاسکتی تھی۔ چڑھائی چڑھتے چڑھتے سہیلیوں کے قدم اکثر ڈگمگاجایا کرتے تھے۔
سوال: سوشل ورک کا رجحان کیسے پیدا ہوا؟
ایم-اے کرنے کے بعد 2012 میں خصوصی افراد سے سوشل میڈیا پر روابط قائم کرنا شروع کردیئے۔ آہستہ آہستہ باقاعدہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لوگوں کی تکالیف دیکھ کر دل ہی دل میں کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہونے لگا۔ وقت گزرنے ساتھ ساتھ خصوصی افراد کے مسائل پر کام کرنے والی این-جی-اووز سے بھی روابط قائم ہونا شروع ہوگئے۔ اسطرح این-جی-اووز کی میٹنگز اور سیمینارز میں اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملا۔
سوال: “نیشنل فارم فار وومن ود ڈس ایبلٹی” کن امور پر کام کر رہی ہے؟
نیشنل فارم فار وومن ود ڈس ایبلٹیز، ڈی-پی-اوز کا نیٹ ورک ہے تمام سرکاری، غیر سرکاری اور بین الاقوامی این-جی-اوز اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ نیٹ ورک کا قیام 2009 میں عمل میں آیا۔ بنیادی مقصد میں خواتین باہم معذوری کو مرکزی دھارے میں لانااور یو-این-آر-پی-ڈی کی تمام شقوں کو نافظ کرانا ہے۔ نیٹ ورک نے تمام صوبوں میں خواتین باہم معذوری سے متعلق قانون سازی کے عمل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سوال: “انسیپشن” کیا ہےاور دوسری این-جی-اووز سے کس طرح مختلف ہے؟
فوزیہ انسیپشن نام این۔جی-او کی بھی ایگزیکٹو ممبر ہیں۔ این-جی-او کی تمام ممبرز پڑھی لکھی خواتین باہم معذوری ہیں، سب جاب لیس ہیں ۔ "انسیپشن" اب تک کوئٹیہ کے بہت سے مالز، شاپنگ سینٹرز، بلڈنگز اور دفاتر وغیرہ میں ریمپس بنوا چکی ہے۔
انسیپشن اپنے آپ کو روائیتی این-جی-او نہیں تسلیم کرتی ۔ ایک طرف یہ خصوصی افراد کو تمام معاشرتی اور معاشی سرگرمیوں کا حصہ بنانا چاہتی ہے تو دوسری طرف عام خواتین کی تولیدی صحت جیسے مشکل موضوع پر متعدد ورک شاپس بھی کرواتی ہے۔ مشکل موضوعات پر بات کرنے کے حوالے سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی ورک شاپس تھیں جن میں عام خواتین کی تولیدی مسائل صحت ساتھ ساتھ خصوصی خواتین کے تولیدی مسائل پر بھی بات کی گئی۔انسیپشن “فلم میکنگ” پر بھی ورک شاپس کروا تی ہے۔جن کا مقصد خصوصی افراد کو کیمرے کے پیچھے ہونے والی سرگرمیوں میں شامل کرانا اور انکے لیئے فلم میکنگ کی صنعت کے دروازے کھولنا ہے۔
سوال: کتنے ممالک کے دورے کر چکی ہیں اور کیا فرق محسوس کرتی ہیں؟
امریکہ اور نیپال کا دورہ کرچکی ہیں۔ فوزیہ کہتی ہیں کہ امریکہ میں خصوصی شخص کسی کی مدد اور سہارےکے بغیر اپنے بہت سے کام خود سےکر سکتا ہے۔ تعلیمی ادارے، ہوٹلز، پارکس، شاپنگ سینٹرز، سیاحتی مقامات، ٹرانسپورٹ ہر جگہ رسائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ نیپال کا امریکہ سے مقابلہ تو ن ہیں کیا جاسکتا پھر بھی نیپال میں دستیاب سہولیات کو وطن عزیز سے بہتر قرار دیتی ہیں۔
سوال: وطن عزیز کے سیاحتی مقامات پر رسائی کی کیسی سہولیات موجود ہیں؟
ویل پر مری، ناران، گلگت، ہنزہ، چلاس وغیرہ جیسے سیاحتی مقامات کی متعدد بار سیر کر چکی ہیں۔ تھوڑی مشکلات کے باوجود رسائی کے انتظامت کو خصوصی افراد کیلئے بہترین قرار دیتی ہیں اور سب دوستوں کو ان مقامات کی سیر کو مشورہ دیتی ہیں۔
سوال: مایوس ہوتی ہیں تو کیا کرتی ہیں؟
زندگی کو اتار چڑھاؤ کا نام سمجھتی ہیں۔مایوسی سے دور رہنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مایوسی کی حالت خودکو مصروف رکھتی ہیں۔ اگر کام میں دل نہ لگے تو عبادت کے ذریعے خدا سے مدد مانگتی ہیں۔
سوال: فارغ وقت میں کیا کرتی ہیں؟
پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ ہر وقت اچھی کتابوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ فارغ ا وقات میں پڑھنا پسند کرتی ہیں۔
سوال: کھانے میں کیا پسند کرتی ہیں؟ کیا کوکنگ بھی کرلیتی ہیں؟
دیسی ،چائنیز ہر قسم کے کھانے پکا لیتی ہیں۔ دالیں اور سبزیاں پسند کرتی ہیں۔ حلیم کو پسندیدہ ڈش قرار دیتی ہیں۔
سوال: آپ کی نظر میں بلوچستان کی خصوصی خواتین کے اہم ترین چیلنجز کیا ہیں؟
بلوچستان کی خواتین باہم معذوری کے مسائل ملک کی دوسرے صوبوں کی خواتین سے مختلف قرار دیتی ہیں۔ دہشت گردی، غربت، بے روگاری، تعلیم اور صحت کی سہولیات کمی کو مسائل کی بڑی وجہ سمجھتی ہیں۔ فوزیہ کہتی ہیں کہ اگر ہم تعلیم کی بات کریں تو بلوچستان کو سکولوں کی کمی کا سامنا ہے، آگہی کا فقدان، قبائلی روایات اور غربت جیسے مسائل خواتین کے راستے کی بڑی رکاوٹین ہیں۔
سوال: کیا خصوصی خواتین کو شادی کرنی چاہیئے؟
خصوصی خواتین کو شادی کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ عام خواتین کو حاصل ہے لیکن خصوصی خواتین کے معاملے میں ہمارا معاشرہ تہمات اور خدشات کا شکار نظر آتا ہے۔ گھر کے کام کیسے کرے گی؟ بچے ہونگے یا نہیں؟ لوگ کیا کہیں گے؟ جیسے سولات شادی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
ملک 7 سے 8٪ آبادی کا شادی کے بندھن سے محروم رہ جانا انسانی المیے سے کم نہیں۔ اس کا واحدحل “گریٹ ڈیبیٹ” سے ممکن ہے۔ جب تک افراد باہم معذوری اور معاشرے کے درمیان اس مسلئے پر کھل کر بحث نہیں ہوگئی اس وقت تک معاشرہ تحفظات کا شکار رہے گا۔
سوال: خصوصی خواتین کو کیا پیغام دینا چاہیں گیں؟
فوزیہ کہتی ہیں کہ خواتین باہم معذوری کو ہر مسلئے پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خصوصی خواتین کے مسائل معاشرے کے کسی بھی طبقے سے کہیں ذیادہ ہیں۔ خود اعتمادی کو ایسا ہتھیار قرار دیتی ہیں جس سے تمام مسائل کا حل ممکن ہے۔


