
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
انٹرویو: محمد سلیم ناصر

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا مجھے ایک شعر یاد آگیا جو قارئین کی نظر کرتا ہوں
” میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر”
یہاں شعر لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ آج جس سپیشل شخصیت سے میری ملاقات ہوئی اور مجھے ان سے گفتگو کرنے کا موقع ملا تو ان کی ہر بات اسی ایک شعر کے گرد گھومتی نظر آئی ویسے تو ہم روز مرہ زندگی میں بہت سے سپیشل افراد کو دیکھتے ہیں جو کہ اکثر کسی بھی طرح سے دوسرے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں اکثریت ایسے سپیشل افراد کی ہے جو اپنی معزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محنت کو پس پشت ڈال کر ہاتھ پھیلانے کو ترجیح دیتے ہیں مگر معاشرے میں کچھ خودار لوگ بھی ہیں جو اپنی معزوری کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیتے اور انتھک محنت سے معاشرے میں عام نارمل لوگوں سے بھی آ گے نکل جاتے ہیں “سپیشل پاکستان میگزین” ایک ایسے ہی با ہمت سپیشل فرد کی کہانی قارئین کی نظر کرتا ہے۔
س:- اسلام علیکم عبد الماجد کیسے ہیں آپ اپنی زندگی کے بچپن سے تعلیم تک کا سفر ہمارے قارئین کو بتانا پسند کریں گے؟
ج:- وعلیکم السلام میں الحمداللہ ٹھیک ہوں جی میں ضرور بتاؤں گا کہ بچپن سے لیکر اب تک کا سفر میں نے کیسے طے کیا میں 24 دسمبر 1984ء کو 83/پی گاؤں میں پیدا ہوا میں بلکل نارمل پیدا ہوا تھا جب میں ڈیڑھ سال کا ہوا تو مجھے پولیو ہو گیا جس میں میری دونوں ٹانگیں معزور ہو گیں گھر والوں نے میرا علاج بھی بہت کرایا مگر کامیابی نہ ہوئی جب میں نے ہوش سنبھالا تو گاؤں کے مقامی سکول سے پرائمری تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد میٹرک میں نے شہر کے کالونی ہائی اسکول سے کی اور پھر علی گڑھ کامرس کالج سے میں نے دو سالہ ڈی کام کا ڈپلومہ حاصل کیا اس کے بعد میں نے بی کام میں ایڈمیشن لیا مگر اسی دوران میری گورنمنٹ سیکٹر یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن میں اسسٹنٹ اکاؤنٹ آفیسر کی جاب ہو گی بس پھر میں بی کام کی تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور اب مجھے 14 سال ہو گے ہیں جاب کرتے ہوئے۔
س:- آپ کو اس مقام تک پہنچانے میں آپکی فیملی دوست احباب کا کتنا کردار ہے؟
ج:- جی بلکل میں آج جس مقام پر بھی ہوں اس میں میرے گھر والوں اور میرے دوستوں کا بہت ساتھ ہے پہلے تو میں ذرا اپنے گھر والوں کے بارے بتاتا چلوں کہ میرے والد گاؤں کے نمبردار تھے جن کا نام حاجی محمد منشاء تھا مجھے اس مقام تک پہنچانے میں میرے والدین کا بہت ہی زیادہ اہم کردار ہے بچپن میں میری والدہ خود مجھے تیار کرکے گاؤں کے سکول میں چھوڑ کر بھی آتیں تھیں اور لیکر بھی آ تیں تھیں اور میں گھر میں بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہوں میرے تین بھائی اور دو بہنیں اور بھی ہیں جو بلکل نارمل ہیں اور اپنی پریکٹیکل زندگی میں مصروف ہیں میرے والد اور بھائیوں کے ساتھ دوستانہ ماحول تھا میرا سب نے میرا بہت خیال رکھا اور زندگی کہ کسی بھی موڑ پر مجھے تنہا نہیں چھوڑا اور نہ ہی کبھی مجھے محسوس ہونے دیا کہ میں نارمل انسان نہیں ھوں تفریحی مقامات پر جب بھی گئے ہم سب ساتھ گئے اور پھر مجھے زندگی میں اب تک جتنے بھی دوست ملے انہوں نے بھی مجھے بہت عزت دی میرا بہت خیال رکھا میں اپنے گھر والوں اور دوستوں سے بہت خوش ہوں۔
س:- آپ کی ازدواجی زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ کیونکہ اک نارمل انسان اور سپیشل انسان میں بہت فرق ہوتا ہے۔
ج:- جی الحمداللہ میں اپنی شریک حیات سے بہت خوش ہوں میرا بہت خیال رکھتی ہے میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ میری شریکِ حیات اس قدر خدمت گزار اور میرا خیال کرنے والی ہو گی کیونکہ کبھی کبھی دل میں خیال آ جاتا تھا کہ مجھ سے شادی کون کرئے گا کیونکہ میں تو اک نارمل انسان نہیں ھوں مگر جب میں نے پریکٹیکل زندگی میں قدم رکھا تو مجھ سے شادی کے لیے خود میرے گھر والوں کو پیغام بھیجا جس کومیں نے قبول کیا اور میرے گھر والوں نے بھی مگر میں نے شادی سے پہلے اپنے بارے بات بھی کی کہ میری معذوری آپ لوگوں کے سامنے ہے کل کوکوئی اعتراض ہو اس سے اچھا ہے کہ آپ ابھی سوچ لیں جس پر میری شریک حیات نے کہا کہ میرے لیے یہ خوشی کی بات ہے کہ میں آپ سے شادی کروں اور شادی کے بعد اب تک میں اپنی ازدواجی زندگی میں بہت خوش ہوں میری شریکِ حیات بہت ہی نیک پاکباز خاتون ہیں میرا بہت خیال رکھتی ہے اور کبھی مجھے محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں معزور ہوں۔
س:- آپ کو کھانے پینے میں اور زندگی میں کیا پسند ہے اور کیا نہ پسند ہے؟
ج:- مجھے کھانے میں فرائی بیف بہت پسند ہے اور کولڈرنک کی نسبت میں چاٹی کی لسی کو زیادہ پسند کرتا ہوں اور سبزیاں ساری ہی شوق سے کھاتا ہوں شلوار قمیض میرا پسندیدہ ڈریس ہے تاریخی کتابیں بھی شوق سے پڑھتا ہوں۔
س:- آپ حکومتی سطح پر سپیشل افراد کے لیے کئے گئے اقدامات سے کس قدر مطمعین ہیں؟
ج:- بہت اچھا سوال ہے آپ کا مگر یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ مجھے تو کبھی ایسی کوئی ضروت نہیں پڑی کہ سوشل ویلفیئر کے دفتر جاؤں مگر انٹرنیٹ نے پوری دنیا کو ایک مٹھی میں سمو کر رکھ دیا ہے تو کوئی بات کسی سے چھپی نہیں ہے سپیشل افراد کے لیے حکومت تو ترجیحی بنیادوں پر بہت سے مثبت قوانین لاتی ہے مگر مشکلات تب سپیشل افراد کو پیش آتیں ہیں جب سوشل ویلفیئر اور بیت المال جیسے دفاتروں میں کلیدی عہدوں پر براجمان افسران ذاتیات کی بنیاد پر اپنے اختیارات کا درست استعمال نہیں کرتے اور اپنے قریبی لوگوں کو فنڈز میں سے نوازتے ہیں سوشل ویلفیئر کے دفتر میں سپیشل افراد کے لیے کوئی سہولیات نہیں ہے سخت گرمی میں نہ تو بیٹھنے کا کوئی مناسب انتظام ہے اور نہ ہی کوئی ریمپ بنایا ہوا ہے پینے کے لیے پانی تک دستیاب نہیں ہے ضلع بھر سے جب بھی میڈیکل بورڈ معزوری سرٹیفیکیٹ کے لیے بیٹھتا ہے تو اس میں پہلے تو بورڈ کے ممبر ہی پورے نہیں ھوتے پھر سینکڑوں کی تعداد میں فائلیں جمع ہوتیں ہیں مگر بورڈ میں ان لوگوں کی فائلیں دی جاتیں ہیں جو کاغزی چمک دمک سے مختلف افسران کو نوازتے ہیں یا جو افسران کے قریبی لوگ ہیں سوشل ویلفیئر کو بہت سے فلاحی ادارے بھی سپیشل افراد کے لیے فنڈنگ کرتے ہیں مگر یہ سارا فنڈ کہاں جاتا کچھ پتہ نہیں بس سال کے مخصوص دنوں میں افسران فوٹو سیشن کروا کر اور میڈیا پر بڑی بڑی باتیں کر کے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ابھی یہ کورونا وائرس میں لاک ڈاؤن کی جو صورتحال تھی اس میں کتنا سپیشل افراد کو فنڈ دیا کچھ پتہ نہیں بلکہ مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا حکومت تو سپیشل افراد کے لیے بہت کچھ کرتی نظر آتی ہے مگر جونچلی سطح پر مختلف اضلاع میں سٹاف ہے وہ کرپٹ ہے اور جب تک ایسے کرپٹ سٹاف کے خلاف حکومتی سطح پر کوئی سخت قانون نہیں بنایا جائے گا تب تک افسران دوسروں کے حق پر ڈاکہ مارتے رہیں گے۔
س:- آپ “سپیشل پاکستان میگزین” کے پلیٹ فارم سے اپنے جیسے سپیشل افراد کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ج:- جی میں اپنے جیسے سپیشل افراد کو بس یہی کہنا چاہوں گا کہ اپنی معذوری کو مجبوری نہ بنائیں بلکہ وقت اور حالات کا جوانمردی سے مقابلہ کریں ہمت اور حوصلے سے کام لیں جب انسان کا حوصلہ بلند ہو تو کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا اور خاص کر میں نارمل افراد کو بھی یہ پیغام دوں گا کہ اپنے اردگرد جو بھی سپیشل فرد نظر آئے اس کو ہمت اور حوصلہ دیں اور ان کو تعلیم اور محنت پر توجہ دلانے کے لیے مثبت کردار ادا کریں انکی ہر کام میں حوصلہ افزائی بھی کریں اور ان کو احساس نہ ہونے دیں کہ وہ نارمل نہیں ہیں اور جتنا بھی ممکن ہو ان کو احساس کمتری کا شکار نہ ہونے دیں تاکہ آنے والے وقت میں وہ بھی محنت سے کسی مقام پر پہنچ کر اپنے ملک و قوم کا نام روشن کر سکیں۔
س:- کبھی زندگی کے کسی موڑ پر آپ نے سوچا ہو کہ کاش میں بھی اک نارمل انسان ہوتا۔
ج:- جی نہیں بلکل بھی نہیں میں نے کبھی بھی اللّٰہ تعالیٰ سے شکوہ نہیں کیا بلکہ ہر حال میں اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے اور نہ ہی مجھے کبھی یہ احساس ہوا میں پھر کہوں گا کہ میری فیملی اور دوست احباب سب جتنا بھی ممکن ہوا میرا ہر طرح سے ساتھ دیا شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ھوا کہ میں معزور ہوں۔
