
ساہیوال کی سینئر خواجہ سراء انمول بخاری کی درد بھری کہانی
تحریر: ثاقب لقمان قریشی

انمول رضا شاہ بخاری کا تعلق ساہیوال سے ہے۔ زندگی ویلفیئر سوسائٹی کی صدر اور ساہیوال میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی فوکل پرسن اور ڈویژن کارڈینیٹر ہیں۔ اتنے سارے عہدوں کے باوجود انمول کے پاس علاج، مکان کا کرایہ اور گزر بسرتک کیلئے پیسےنہیں ہوتے۔
انمول کا تعلق ساہیوال کے با اثر بخاری خاندان سے تعلق ہے۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہیں۔والدہ کی وفات بچپن میں ہی ہوگئی تھی۔جبکہ والد صاحب 2012 میں فوت ہوئے۔ والد صاحب بھٹو صاحب کے ہم جماعت اور قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ بھٹو صاحب جب بھی ساہیوال کا دورہ کرتے انکے گھر کا چکر ضرور لگاتے ۔ انمول بچپن میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی اپنے گھر میں دیکھ چکی ہیں۔
انمول کی پیدائش پر والدین نے بہت خوشیاں منائیں۔ چلنے پھرنے کے قابل ہوئیں تو لڑکیوں والی حرکتیں کرنےلگیں۔ شروع شروع میں والدین نظر انداز کر دیا کرتے تھے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ والدین کی پریشانیاں بھی بڑھنا شروع ہوگئیں۔ پہلے پہل سمجھانے کے ساتھ ہلکی پھلکی پٹائی کر دی جاتی ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ تایا، چاچا اور سوتیلی والدہ کی طرف سے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ۔
اکثر گھر میں قید کر دیاجاتا ۔موقع ملنے پر گھر سے بھاگ جایا کرتیں اور گلی کے کونے میں بیٹھ کر خوب رویا کرتیں۔ روتے روتے سو جا یا کرتیں، آنکھ کھلتی تو اپنے ساتھ کتوں کو سویا ہوا پاتیں پھرکتوں کے خوف سے گھر کی طرف بھاگتیں، زور زور سے دروازہ کھٹکھٹاتیں۔ گھر والوں سے معافی مانگتیں ۔ مار پیٹ کر انمول کو دوبارہ کمرے میں بند کر دیا جاتا۔
سکول جانے کی عمر کو پہنچیں تو گھر کے نزدیک ترین سکول میں داخلہ کروا دیا گیا۔پڑھائی میں بہت اچھی تھیں۔ ہمیشہ اچھے نمبروں سے امتحانات پاس کرتیں۔ وقت سے پہلے سکول جانا، کلاس کی جھاڑو لگانا، پانی کے مٹکے کو بھر کر رکھنا معمول تھا۔ چھوٹی کلاسوں میں انمول مانیٹر ہوا کرتی تھیں۔ جیسے جیسے بڑی جماعتوں میں جاتی گئیں بچوں کا رویہ تبدیل ہوتا چلا گیا۔ بچے ہر وقت مذاق اڑایا کرتے۔ سطحی الفاظ اور ہر وقت کی چھیڑ چھاڑ تعلیم کے راستے کی رکاوٹ بننا شروع ہوگئی۔بڑی کوششوں کے باوجود میٹرک تک ہی تعلیم حاصل کر پائیں۔ ایف اے پرائیویٹ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکیں۔
گھر کی سختیوں اور معاشرے کے ناروا سلوک سے تنگ آکر انمول نے ٹرانس جینڈرز سے دوستیاں بڑھانا شروع کر دیں۔ ایک دفع ایک خواجہ سراء نے انمول سےفیصل آباد میں لگنے والے میلے کا ذکر کیا۔گھر کی پریشانیوں سے تنگ انمول نے میلے میں جانے کی فوری حامی بھر لی ۔ خواجہ سرا، ء انمول کو اپنے گھر لے گئی۔ کھانا کھلایا کپڑے پہننے کو دیئے۔ اسکی محبت اور شفقت نے انھیں بہت متاثر کیا۔
میلے میں جانے کی خبر جیسے ہی والد صاحب تک پہنچی تو انھوں نے میلے کا رخ کیا۔ انمول کو دیکھتے ہی انکا خون کھول اٹھا۔ انمول کو بالوں سے گھسیٹا اور مارنا شروع کر دیا۔ اتنا ماراکے بے حوش ہوگئیں۔ آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو تھانے میں پایا۔ ایس-ایچ-او کے دریافت کرنے پرانمول نے بتایا کہ تشدد کرنے والا شخص انکا والد ہے،مار پیٹ کی کی وجہ میلے میں خواجہ سراء بن کر آنا ہے۔ ایس ایچ او نے انمول کو دو تھپڑ رسید کیئے گالیاں دیں اور والد کے ساتھ چلتاکیا۔
گھر پہنچنے پر والد صاحب نے انمول کو ایک کمرےمیں بند کر دیا اور کمرے کو تالا لگا دیا ، سوتیلی ماں کو ہدایت دی کہ اگر یہ کمرے سے باہر نکلی تو تمھارے ساتھ اچھا نہیں ہوگا۔ کھانا پینا بند کر دیا گیا۔ انمول کو باتھ روم کیلئے بھی ماں کی منت کرنا پڑتی۔ ماں ڈرتے ڈرتے پہلے سارے گھر کو تالے لگا تی پھر کمرے سے باہر نکلنے کا کہتی۔
گھر میں کچھ عرصہ قید رہنے کے بعد انمول نے والد صاحب سے معافی مانگ لی اور والد کے ساتھ ہی رہنا شروع کر دیا۔ کچھ دن توبہت اچھے گزرے لیکن پھر معاشرتی رویوں نے راستے کی رکاوٹ بننا شروع کر دیا۔ جہاں جاتیں لوگ طرح طرح کے القابات سے نوازتے۔جس پر والد کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔
انمول کہتی ہیں کہ ہمارا معاشرہ ٹرانس جینڈرز کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھتا ہے، جس کی وجہ سے ٹرانس جینڈرز ، مردوں کیلئے آسان ترین شکار تصور کیئے جاتے ہیں۔ ٹرانس جینڈرز کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے بیشتر واقعات رپوٹ تک نہیں ہوتے انمول کےساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ 1995 میں گاؤں کے کچھ بااثر افراد نے انمول کو اغواء کر کے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ والد نے ایف-آئی-آر تک کٹوا دی لیکن بااثر افراد نے کچھ سیاسی شخصیات کو کیس میں ڈال کر معاملے کو رفع دفع کروا دیا۔
اس واقعے نے انمول کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کردیا۔ انمول نے گھر کے تما م افراد سے بات کرنا چھوڑ دی۔ غصہ آہستہ آہستہ نفرت میں تبدیل ہو تا چلا گیا، گھر کا ہر فرد برا لگنے لگا۔ محلے والوں اور رشتہ داروں کی باتوں سے تنگ آکر کبھی کمرے میں بند کیا جاتا تو کبھی خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ روز روز کی مار دھاڑ سے تنگ آ کر انمول نےگھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
ایک روز انمول نے خاموشی سے گھر کو خیر آباد کیا اور اپنی ٹرانس جینڈر دوست کے گھر چلی گئیں۔ دوست کے گھر والوں نے انمول کو کھلے دل سے قبول کیا۔ یہ لوگ بہت غریب تھے لیکن انکا رویہ عام لوگوں سے کافی مختلف تھا۔ گھر کے تمام افراد انمول سے نرمی سے پیش آتے۔یہ لوگ میلوں میں ڈانس کر کےپیسے کما لیا کرتے تھے۔مختصر سے عرصے میں انمول نے میک اپ کرنا ،خواتین والےکپڑے بپہننا اور خواتین کی طرح چلنا پھرنا سیکھ لیا۔
پھر انمول ٹرانس جینڈرز کے ایک ایسے گروپ کے ساتھ وابستہ ہوگئیں۔ جنھیں ٹولی ولا گروہ کہا جاتا ہے۔ٹولی میں رہنے کیلئےپانچ وقت کی نماز اور قرآن کی تلاوت لازم تھی۔ غیر مرد کو گھر میں گھسنے کی اجازت نہیں تھی۔ ناچ گانا صرف پیٹ بھرنے کیلئے کیا جاتا تھا۔اچھا کھانا، اچھا پہننا، جی بھر کے سونا، مرضی ہو تو کام پر جانا جیسی چیزوں نے انمول کو بہت متاثر کیا۔
انمول نے ڈانس میں اتنی مہارت حاصل کرلی کہ انمول کے ڈانس کے چرچے دور دور تک ہونے لگے۔اپنی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کرنے کیلئے مہاراج کتھک کی شاگردی میں چلی گئیں اور قلیل سی مدت میں کتھک ڈانس میں مہارت حاصل کر لی۔
بڑے میلوں میں اکھاڑوں کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں مزاحیہ فنکاروں کو بھی بلایا جاتا ہے۔ فنکار جگتیں کستے ، نقلیں اتارتے اور ڈانسر نے جگتوں کے مطابق ڈانس کرنا ہوتا ہے۔ انمول نے اکھاڑہ لائن میں استاد چوہے خان چھبر کو اپنا استاد بنا لیا جو استاد تافو خان کے شاگرد تھے۔
انمول جوانی میں کافی عرصہ میلوں کی زینت بنی رہیں، پنجاب کے مختلف شہروں میں لگنے والے میلوں میں انھیں خاص طور پرمدعو کیا جاتا ۔ لوگ ان کے فن کی تعریف کیئے بناء نہ رہتے ۔ آہستہ آہستہ جوانی ڈھلتی رہی نئے فنکار میدان میں آگئے اور پھر انھیں اس فیلڈ کو خیر آباد کہنا پڑ ا۔
انمول ٹرانس جینڈرز پر ہوئے والے تشدد کے واقعات کو دیکھ خوب رویا کرتیں۔ ظلم اور جبر کے نہ رکنے والے سلسلے نے انمول کو احتجاج کرنے پر مجبور کر دیا۔ وقت کے ساتھ حوصلے میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پھر ہمت کر کے اپنی این-جی-او بنا لی۔ جسے آج تک رجسٹر نہیں کروا سکیں۔
انمول کی این جی او کا نام “زندگی ویلفیئر ” ہے جوٹرانس جینڈرز، بچوں، بے سہارا عورتوں اور معذور افراد کے حقوق پر کام کرتی ہے۔ اس وقت زندگی ویلفیئر کے پاس چھ سو سے زائد خواجہ سراء رجسٹرڈ ہیں۔زندگی ویلفیئر انکے ، علاج، تعلیم اورہنر کیلئے کام کرتی ہے۔ اسکے علاوہ تھانہ کچہری، شناختی کارڈز، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سے جڑے کاموں میں معاونت فراہم کرتی ہے۔یہ سارے کام مقامی ڈونرز کی مدد سے کیئے جاتے ہیں۔
اس وقت انمول پنجاب پولیس کی جانب سے کارڈینیٹر کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں، سوشل ویل فیئر کی جانب سے ساہیوال کی فوکل پرسن ہیں اسکے علاوہ خواجہ سراء ایسوسی ایشن ساہیوال کی صدر بھی ہیں۔ لیکن تینوں اداروں سے تنخواہ نہیں ملتی۔ انمول ساتھی فاؤنڈیشن کے ساتھ بھی کام کر رہی ہیں جہاں سے ملنے والی تنخواہ سے مکان کا کرایہ اور بجلی کا بل ادا کر دیتی ہیں ۔ دل کا عارضہ لاحق ہے، کافی عرصے سے ڈاکٹر نے مثانے کے آپریشن کا مشورہ دیا ہوا ہے لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے آپریشن نہیں کروا پارہیں۔ دو وقت کا کھانا مل جاتا ہے تو کھا لیتی ہیں ورنہ خدا کا شکر ادا کر کے سو جاتی ہیں۔
آب بیتی کے اختتام پر انمول نوجوان خواسراؤں سےیہ کہنا چاہتی ہیں کہ ہمارا معاشرہ خواجہ سراؤں کیلئے کانٹوں کی سیج ہے۔ یہاں ظلم، ذیادتیوں اور ناانصافیوں کو خواجہ سراء کامقدر بنادیا گیا ہے۔ اسلیئے جو پیسہ کماتی ہیں اسے سنبھال کر رکھیں۔ڈھلتی عمر خواجہ سراؤں کے مسائل میں مزیداضافے کا سبب بنتی ہے۔ اسلیئے بڑھاپے کی پہلے سے تیاری کرکے رکھیں تاکہ کسی کا سامنے ہاتھ نہ پھیلانا نہ پڑے۔

