
بات توسوچنے کی ہے
تحریر۔ ندیم احمد اعوان

بات تو سوچنے کی ہے کہ ہم
اپنی زمہ داری کو کس حد تک پورا کر رہے ہیں یہ معزور افراد بھی جو کہ اس معاشرے کا حصہ ہیں ان کی تکلیف کا اندازہ نہیں لگا سکتے ان کی تکلیف کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو ان کے والدین سے پوچھ کر دیکھیئے ان معذور لوگوں سے پوچھیئے کہ وہ کس درد اور قرب سے گزر رہے ہیں ان کی طرف بھی ایک قدم بڑھائیں ان کے درد کو اپنا درد سمجھ کر ان کو پیار اور محبت کا اظہار کرے تا کہ وہ بھی معاشرے میں خوشی سے زندگی گزار سکیں۔
دنیا بھر میں ہر سال 03 دسمبر کو عالمی سطح پر معذور افراد کا دن اس مناسبت سے منایا جاتا ہے کہ ریاستیں اور رعایا خصوصی افراد پر توجہ مرکوز کر کے ان کی معاشی،اخلاقی وسماجی سطح پر معاونت کرتی ظاہر ہوتی ہے تا کہ وہ زندگی کے آخری سانس تک احساس محرومی کا شکار نہ ہو سکیں رحمتہ للعالمین نے مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست میں نادراوں،یتیموں،بیواوں،مسکینوں،معذور افراد کی کفالت کا ایسا رول ماڈل سٹرکچر بنایا جو خلفائے راشدین کے دور خلافت کے بعد قائم رہا۔ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں سے گزارش ہے کہ وہ معذور افراد کی کفالت،انہیں روز گار فراہم کرنے اور اندرون و بیرون ملک بنیادی سہولیات جن کی سرکاری سطح پر منظوری ہو چکی ہے اس حوالے سے آگاہی مہم چلائے۔پاکستان بالحصوص آزاد کشمیر میں قابل قدر رفاعی تنظیمیں اپنی اپنی سطح پر بے لوث خدمت سرانجام دے رہی ہیں۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جو 130 ارب روپے سالانہ قومی بجٹ کا حصہ ہے اس میں جسمانی معذور اور نابینا افراد کو ماہانہ 30 ہزار روپے کفالت کیلئے وقف کر دے تو یہ اقدام دنیا بھر کو جب نظر آئیگا ۔معذور افراد اور انکے اہلخانہ کا سرکاری و نیم سرکاری ہسپتالوں میں فری علاج کا قانون نافذ ہو چکا ہے۔جسمانی،ذہنی معذور افراد کو انصاف صحت کارڈ کے قومی پروگرام میں شامل کر کے انہیں صحت کارڈ دئیے جائیں تاکہ وہ بھی مفت علاج کی سہولت سے مستفید ہوسکیں۔ معذور آفراد کو مالی امداد میرج گرانٹ اور انکے لواحقین کو ڈیتھ گرانٹ باآسانی ملنے کی راہ نکالی جائے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان اور آزاد کشمیر میں بھی 3 دسمبر عالمی یومِ معذوراں یعنی خصوصی افراد کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔ یہ دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 14 اکتوبر 1992 کو منظور ہونیوالی قرار داد نمبر 3/47کے تحت ہر سال منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے ہی 2006 میں کنونشن برائے حقوق ِمعذور اں منظور کیاجس میں دستخط کنندہ ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ تمام شعبہ ہائے زندگی میںجسمانی اور ذہنی طور پر معذور یعنی خصوصی افراد کو مساوی مواقع فراہم کرنے کیلئے قانونی ڈھانچہ تشکیل دیں۔ایک ذمہ دار مملکت کی حیثیت سے پاکستان نے بھی اس کنونشن پر دستخط کئے۔ اسکے باوصف خصوصی افراد کے حوالے سے پاکستان کی مجموعی صورتِ حال حوصلہ افزا نہیں۔ قومی مردم شماری رپورٹ 1998 کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی کا 2.49 فیصدخصوصی افراد پر مشتمل ہے۔ ۔ مردوں کی تعداد دیہی اورشہری دونوں علاقوں میں خواتین سے زیادہ ہے۔ پچھلے اکیس برس میںبوجوہ پاکستان میں خصوصی افراد کی تعداد میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں 13.4فیصد یعنی 2کروڑ 80 لا کھ افراد مختلف جسمانی معذوریوں سے ہمہ وقت نبردآزما ہیں۔ جسمانی معذوری ایک وسیع ،پرت داراور قدرے غیر مانوس اصطلاح ہے جو بنیادی طور پرکسی فرد کی مخصوص جسمانی کیفیت کے علاوہ اس کیفیت کے سبب پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ جسمانی معذوری کی تین اقسام ہیں: نمبر ایک disabilityیعنی جسم کے کسی حصّے یا عضو بشمول ذہن غیر فعال ہونا؛نمبر دو handicap یعنی انسان کا اپنے جسم یا دماغ میں کسی قسم کی کمی یا کمزوری کے سبب بعض افعال سر انجام دینے سے معذور ہونا اور نمبر تین impairment یعنی جسم کے کسی حصّے میں کسی بگاڑ کا پیدا ہو جانا۔ نتیجتاًوہ تمام افراد خصوصی افراد کہلاتے ہیں جن میں سمجھنے، دیکھنے، سننے، سونگھنے ،بولنے ، مناسب انداز میں نقل و حرکت کرنے اور معمول کےھمطابق معاشرتی تعلقات استوار کر نے کی صلاحیت مفقود ہویا عام لوگوں کے مقابلے میں کم ہو۔ بدقسمتی سے خصوصی افراد کے حوالے سے ہمارا معاشرے کا عمومی رویہ غیر مناسب اور قابل ِمذمت ہے۔ ہم ان افراد کو جو جسمانی اعتبار سے ہم سے مختلف ہیں تمسخر اور تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں یا انہیں ترحم اور حیرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ رویئے خصوصی افراد کی زندگی کو نہ صرف مذید مشکل اور تکلیف دہ بناتے ہیں بلکہ ان کیلئے گہرے نفسیاتی مسائل بھی پیدا کرتے ہیں۔ کارپردازانِ ریاست کیلئے ضروری ہے کہ خصوصی افراد کی فلاح و بہبودکیلئے معنی خیزپالیسی سازی کریں۔خصوصی افرادکے حوالے سے ترتیب دی گئی کسی بھی حکومتی اور معاشرتی پالیسی کے چاربنیادی مقاصد ہونے چاہئیں۔ اوّل،ملک بھر میں درست سروے کروا کر خصوصی افراد کی اصل تعداداور انکے عوارض کی نوعیت معلوم کرنا؛دوئم،ان افراد کو معاشرے کا مفید رکن بنانے کیلئے علاج کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا ؛ سو ئم، خصوصی افراد کی مشکلات اور انکے معاشی ، قانونی اور سماجی حقوق کے حوالے سے عوا م النّاس میں آگاہی پیدا کرنا، اورچہارم، معاشرے کو ان افراد کی دلجوعی کرنے کیجانب مائل کرنا۔یہ حقیقت خوش آئند ہے کہ پاکستان میں اس سلسلے میں بنیادی قانون سازی کی جا چکی ہے۔ معذور افراد (ملازمت و بحالی)آرڈیننس 1981،قومی ایکشن پلان برائے معذوراں 2006،مخصوص شہری ایکٹ 2008 اور مخصوص شہری (حق برائے رعایت نقل و حرکت) ایکٹ 2009مقننہ سے پاس کروائے جا چکے ہیں۔ قومی ایکشن پلان ایک اہم دستاویز ہے جس میں مختلف مختصراور طویل مدتی اقدامات کا ذکر ہے۔ مثال کے طور پر مخصوص افراد سے متعلق ڈیٹا بینک کا قیام؛منتخب اضلاع میں معذور افراد کیلئے نمونہ سروے؛ابتدائی اور ثانوی طبی امدادکے ذریعے معذوری کے خاتمے کی سعی؛ معذوری کی بروقت اطلاع اور اس حوالے سے فوری ادارہ جاتی مداخلت کے انتظامات،بحالی کی معیاری طبی خدمات کی دستیابی اور ان میں اضافہ؛مخصوص افراد کی امداد کیلئے غیر سرکاری تنظیموں کی حمایت کا حصول ؛تمام سرکاری، عوامی؛ نجی اور تجارتی عمارتوں کے اندازِ تعمیر میں ایسی تبدیلی جس سے مخصوص افرادآسانی سے ان تک رسائی حاصل کر سکیں اور ان میں بہ سہولت نقل و حرکت کر سکیں اور سوشل سکیورٹی کے منصوبوں میں مخصوص افراد کے حوالے سے توسیع و افزونی۔ قانون کی کتابوں میں ان قوانین کی دستیابی کے باوجود مخصوص شہریوں کے مسائل میں اضافہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اصل مسئلہ نفاذ کے ناپید ہونے کا ہے۔ خصوصی افراد کا سب سے اہم مسئلہ انکی ذہنی و جسمانی بحالی اور معاشرے میں باعزت مقام کا حصول ہے۔ انکی تعلیمی ضروریات احسن طریقے سے پوری کی جانی چاہئیں اور انہیں مناسب روزگار فراہم کرکے معاشرے کا کارآمد شہری بنایا جانا چاہیئے ۔اس عمل کے ذریعے ہی مخصوص افراد معاشرے میں بطریقِ احسن ضم ہو سکیں گے اور انھیں اپنے مختلف ہونے کا احساس پریشان نہیں کریگا۔ ان افراد سے بہتر برتاؤ کی تربیت دینے کیلئے ذرائع ابلاغ اورمحکمہ ہائے تعلیم کو موثر کردار ادا کرنا پڑیگا۔ معاشرے کی روشِ عام کو بدلنا ہمیشہ کارِدارد رہا ہے لیکن بہرحال حکمت ، دانائی،انتظام اور سعئی مسلسل سے زندگی کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے میں معذور افراد کو ان کیلئے مختص حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے اور انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا خالانکہ معذور افراد سب سے زیادہ عزت اور توجہ کے مستحق ہیں اور ہمارے ملک میں معذور افراد کے حقوق کے حوالے سے قوانین بھی موجود ہیں لیکن ان پر کسی قسم کا عمل درآمد نہیں کیا جاتا معذور افراد میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی لہذا ان کا معذور ہونا کوئی جرم نہیں روزگار اور عزت نہ ملنے کی وجہ سے اکثر معذور افراد معاشرے اور خاندان کیلئے بوجھ سمجھے جاتے ہیں لیکن اگر حکومت ان معذور افراد کو سرکاری ملازتوں میں قابلیت کے مطابق کوٹہ دیں تو معذور افراد کو بھی معاشرے اور خاندان کے لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے ہمارے ملک میں معذور افراد کے عالمی دن پر صرف تقاریب کا انعقاد کرکے ایک سال تک انہیں بھلادیا جاتا ہے لیکن ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ معذور افراد کیلئے ٹرانسپورٹ کرایوں میں نصف کرایہ معاف کرانے،انکے تعلیمی اخراجات معاف کرانے،انہیں مفت علاج معالجے کی سہولیات اور روزگار فراہم کرنے کیلئے نہ صرف قانون سازی کرے بلکہ اس پر سخت عملدرآمد بھی یقینی بنایا جائے٭معذور افراد کے مسائل انتہائی گھمبیر اور حل طلب ہیں جنہیں حل کرنا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ معذور افراد کے مسائل گھمبیر اور حل طلب ہیں اور اب وقت آچکا ہے کہ ان کو ترجیع دی جائے قومیں جذبوں سے بنتی ہیں اسپشل افراد کوعلاج معالجے،تعلیم اور روزگار سمیت دیگر معاملات میں درپیش مشکلات کو حل نکالا جائے کیونکہ معذوری کو مجبوری نہ بنانے والے خصوصی افراد کی کردارقابل ستائش ہے۔