
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے میرے آرماں مگر پھر بھی کم نکلے۔
افتخار آرمان ابھی آٹھویں جماعت کا طالب علم ہی تھا، جب گلبہار پشاورکے ایک المناک بم دھماکے میں اپنی گردن توڑوا بیٹھا، اور
زندگی بھر کیلیۓ اپنے جسم کا قیدی بنا۔ ابتداً تو افتخار کو شائد کم عمری کی وجہ سے اپنے ساتھ ہونے والے حادثے کی شدت اور آئندہ
آنے والے مشکلات کا اتنا اندازہ نہی تھا، لیکن اُنکے دیہاڑی دار باپ کے اوپر گزرنے والی قیامت مجھے اُنکے آنکھوں میں صاف نظر
آرہی تھی، جس کا اظہار وہ کئ مواقع پر کبھی کھل کر اور کبھی دبے الفاظ میں کرتے بھی رہے۔
انتہائ غریب اور کم عمر ہونے اور گردن کے نیچے سے مکمل معذور ہونے کی وجہ سے میں حسبِ معمول انکا اور اُنکے خاندان کا
حوصلہ بڑھاتا رہا اور جہاں سے ممکن ہوا، اُن کیلیۓ تعاون کی اپیلیں کرتا رہا، یہاں تک کہ اسلام آباد کے ایک مشہور ٹی وی اینکر سے
موٹرائزڈ ویل چیئر بھی دلوائ، اور وہ کچھ عرصے تک اُنکی مالی معاونت بھی کرتے رہے، لیکن مجھے اچھی طرح معلوم تھا، کہ جب
تک وہ اپنے پاؤں پہ کھڑے نہی ہونگے (محنت مزدوری کی حد تک، ورنہ یہ تو طے ہے، کہ خود اپنے پاؤں پہ وہ کبھی بھی کھڑے نہی
ہوسکیں گے) اس غریب ملک میں کوئ بھی ان کا بوجھ نہی اُٹھا سکے گا۔
سلام ہے، اس انتہائ کمزور اور لاغر نوجوان کے حوصلے کو کہ تمام تر روکاوٹوں اور انتہائ کھٹن اور ناگفتہ بہہ گھریلو مشکلات کے
باوجود اُنہوں نے نہ صرف اپنی تعلیم جاری رکھی، بلکلہ وہ اپنے ایک چھوٹے بھائ کی مدد سے مستقلاً مجھ سے ملنے اور مشورہ
کرنے پیراپلیجک سنٹر بھی آتے رہے۔ میں نے اُنکو مشورہ دیا تھا، کہ کم تعلیم کے باوجود اگر وہ اپنے کمپیوٹر سکلز بہتر بنائیں، تو
شائد اُنہیں کوئ مناسب جاب مل سکے۔ (واضح رہے، کہ ایک سی سیکس (C6) کواڈریپلیجک کے اُنگلیاں بھی بے جان ہوتی ہیں، اور
وہ ایک عام انسان کی طرح لکھ نہی سکتے، نہ ٹائپنگ کر پاتے ہیں۔ وہ ایک لمبی اور صبر آزما ٹریننگ کے بعد بڑی مشکل سے کمپیوٹر
کو استعمال کرنے کے قابل ہوتے ہیں)۔
افتخار آرمان پچھلے دنوں ایک سرکاری ادارے میں بحیثیت ڈیٹا انٹری اپریٹر جاب ملنے کی نوید سُنانے دفتر آۓ، تو میری خوشی کی
انتہا نہ رہی، اور اس شرط پر اُنکی دعوت قبول کرنے کی حامی بھری، کہ وہ مجھے اپنے دفتر میں کام کرتے ہوۓ تصاویر پہلے بھیجیں
گے۔ تاکہ میں اُنہیں اپنے دوسرے باہم معذوری دوستوں کی حوصلہ افزائ کیلیۓ استعمال کرسکوں۔
ویسے تو ہمارے ہاں سرکاری نوکری میں کم ہی لوگ کام کرتے نظر آتے ہیں، لیکن افتخار آرمان نے میرے ساتھ سرکاری وقت ضائع نہ
کرنے اور محنت و لگن اور ایمانداری کے ساتھ اپنا کام جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔
نوٹ: افتخار آرمان اُس دھماکے میں سپائنل کارڈ انجری کا شکار ہوۓ تھے، جس میں ہمارے سابقہ صوبائ وزیر محترم بشیر بلور
صاحب، شہید ہوگۓ تھے۔